جمعرات، 29 نومبر، 2018

آبادی سے بر بادی

                                  
                                



بچپن میں ایک کہانی سنی اور پڑهی تهی!

بادشاہ کو اپنا محل تعمیر کرنا تھا مگر اس کی راہ میں ایک بڑهیا کا جهونپڑا حائل تها جس سے دست برد ہونے کو وہ ہر گز تیارنہ تهی. بادشاہ نے اپنے اختیارات کا استعمال کرنے کے بجائے وہ کونا ایسے ہی چهوڑ دیا تها!اس کہانی کا سبق/عنوان *بادشاہ کا  انصاف* تها..

یہ کہانی میں اپنی کزن کو سنا رہی تهی جب ہم دونوں شاہراہ قائدین پر کهیل رہے تهے !!آپ کی حیرانگی بجا ہے ! نہ ہماری عمریں ہیں کهیلنے کی اور نہ ہی یہ جگہ ہے کهیلنےکی !  پهر؟؟دراصل یہ بہت پرانی بات ہے!
شاہراہ قائدین !0.9میٹرلمبی یہ سڑک ہمیشہ سے ایسی نہ تهی ..پاکستان بننے کے بعد مہاجرین کو ٹهہرانے کے لیے شایدجهگیاں بنائ گئی تهیں اور بعد میں  انہیں الاٹ کر دی گئی تهیں ۔ایک بڑا سا خطہ ہمارے نانا جان کو بهی ان کے متروکہ جائیداد کے کلیم میں ملا .اس پر انہوں نے تعمیر ملت کے نام سے اسکول بنایا جس کا افتتاح عبد الرب نشتر نے کیا تها .بعدمیں یہ اسکول بند ہوگیا یا قومیا لیا گیا (یاد نہیں ہے! )  چنانچہ نانا جان نے اسے رہائشی عمارت میں بدل دیااور برنس روڈ کے فلیٹ سے خود بھی یہاں شفٹ ہوگئے  

یادوں کی چلمن اٹهاو تو ایک تصویر ابهرتی ہے!

اس بڑے سے احاطے میں پانچ گهر، جن میں سے ایک میں نانا جان اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تهے.یہ بقیہ چاروں سے زیادہ کشادہ اور گنجائش رکهتا تها .اس میں ایک گول  کمرہ جو آفس کہلاتا تھا ( اسکول کے زمانے میں یہ آفس ہوگا ) دراصل بیٹهک (ڈرائینگ روم) تھا .وہاں قدیم طرز کا فرنیچر نانا جان کی نفاست کا آئینہ دار تها ..
مجهے اچھی طرح یاد ہے !بهائی کے ساتھ کرسی کے ہتهے پر چڑھ کر روشن دان سے باہر جهانکتے اور راہگیروں خصوصا پهیری والوں سے گفت و شنید کرتے تھے...خالو جان کا تبادلہ پنڈی سے کراچی ہوا توکونے والے مکان میں خالہ جان رہائش پذیر ہوگئیں.اب ہماری دلچسپی اس بڑے سے کمپاونڈ کے آخری مکان میں سب سے زیادہ ہوگئی جہاں خالہ زادکے ساتھ کهانے ،کهیلنے اور باتوں شرارتوں کا اپنا لطف تهااس کے کونے میں ایک   کھجور کا درخت تھا جس میں جنات کی رہائش کا خوف ہم بچوں کو دلا یا جاتا مگر بچوں سے تو جن بھی ڈرتے ہیں شاید ۔۔۔۔۔اس گهر سے جڑے بچپن کی یقینا  ڈھیروں یادیں ہیں مگر اس وقت موضوع وہ عمارت ہے جو شاید منی پاکستان تها.! 
یہ عمارت ایسی تھی جیسا کہ ہم کتابوں  میں ایک مثالی درسگاہ  کی تصویر دیکھتے ہیں  !۔درمیان میں پهاٹک ،پهر میدان اور اونچی بنیادوں پر بنے کمرے جنہیں رہائشی صورت میں ڈهالنے کے لیے ہر گهر کو ایک دیوار کے ذریعے تقسیم کیا گیا تها یوں وہ اس  کا صحن بن گئی تهی ۔  کچھ نے تخت بچهائے ہوئے تهے اور کچھ نے کرسیاں اور مونڈھے ،جہاں دهوپ اور چاندنی سے لطف اندوز ہوا جاتا تها ..نانی کے گهر سے خالہ کے گهر تک ہمارا ریسنگ ٹریک ہوتا جس پر ہم بچے دوڑتے، چهوٹے بہن بهائی تالیاں پیٹتے .اور بڑے سکون کا سانس لیتے ماسوائے ایک گهر کے جہاں کوئی بچہ نہیں تها وہ یقینا پیچ وتاب کهاتے ہوں گے ..  ! .
یہ کوئ 1971 ء یا  1972 ء کی بات ہے!  .ملک مشرقی پاکستان کے سانحے سے گزر رہا تها .اس وقت کی حکومت کو ایر پورٹ سے قائد اعظم کے مزار تک ایک اچهی سڑک بنانے کا خیال آیا ..اس کے لیے ضروری تها کہ اس پوری بستی کو بلڈوز کیا جائے ! چنانچہ سروے اور کاروائی مکمل کرکے نوٹس جاری کر دیے گئے اور لوگوں کو کورنگی میں  بسانے کا فیصلہ ہوا .اس پر احتجاج تها اور بڑوں کی گفتگو سن کر ہم بچے بهی کهیل کهیل میں وہ کہانی دہرا رہے تهے جو اس پوسٹ کے آغاز میں  تحریر کی ہے ..
مختصر یہ کہ کچھ مذاکرات وغیرہ ہوئے جس کے نتیجے میں  گلشن اور فیڈرل بی ایریا کے درمیان کا علاقہ گلشن مصطفیٰ کے نام سے مختص ہوا کہ یہاں متاثرہ افراد کو 80 اور 120 گز کے پلاٹس سستی قیمت پر ( مفت نہیں !) متبادل کے طور پر الاٹ کیے گئے . اس فارمولے کے تحت نانا اور ان کی 3 اولادیں بڑے پلا ٹس جبکہ  کرایہ دار اور دیگر رشتہ دار جو نانا کے گهر مقیم تهے . ( یہ گهر ٹوٹے بچهڑے مصیبت زدگان کے لیے پناہ گاہ بهی تها ..یہ ایک الگ کہانی ہے!) چهوٹے پلاٹس کے حقدار ٹهہرے  اور یوں یہ بستی اجاڑنے  کی تیاری ہونے لگی ...سڑک کی تعمیر میں نانا کے مکان کا ایک حصہ (جس میں مقیم تهے ) پیمائش سے باہر تها اور بچنے کی امید تهی مگر حاسدین کی نظریں اور حکومتی فیتہ اس بات پر مر تکز  ہوگئیں کہ جب سب ٹوٹ رہا ہے تو اس کو بهی توڑیں !! بالآخر اس کام کا آغاز ہوا ..
کتنے عرصے یہ سلسلہ رہا میری یاد داشت میں نہیں... ہاں یہ یاد ہے کہ جس دن وہاں آخری دن تها امی اور خالہ نانی کو ٹیکسی میں لے کر آئیں تو امی نے مجھ سے پڑوس سے برف کے کیوبز منگوائے جو گلوکوز میں ڈال کر انہیں پلا رہی تهیں ...( یہاں پر میں وقفہ لوں گی.. کہ  ٹائم مشین میں بیٹھ کر ایک  ایسے سفر پر روانہ ہونا جو خاصہ درد ناک ہو آسان نہیں ہوتا  !)
نانا اور ماموں وہیں مقیم تهے دن بهر دهول مٹی کهاتے اور ملبے کے ڈهیر پر اپنے سامان کی باقیات  سمیٹتے ...کهانےاور آرام  کے لیے قریب کے افراد مدد کر تے .. بالآخر یہ مرحلہ بهی گزرا ہوگا اور سڑک کی تعمیر شروع ہوگئی ہوگی ... اور وہ لوگ بهی ہمارے گهر آگئے کیونکہ ابا جان ان دنوں جر منی میں تهے اس لیے امی کو بهی دوسراہٹ ہوگئی ..
 یہاں پھر یادداشتیں روکتے ہوئے اصل موضوع پر آتے ہیںمیں کوئی جذباتی ٹانکا نہیں لگانا چاہتی بلکہ as a matter of fact  بیان کرتی ہوں ۔۔۔
ڈان اخبار میں فرنٹ  صفحے پر  یہ اسٹوری  مع تصاویر شائع ہوئی تھی جس میں  نانا اور ماموں اپنے گھر کے ملبے پر بچھی پلنگ پر بیٹھے ہیں ۔اور شہ سر خی چیخ رہی تھی
                    یہ بوڑھا شخص اپنے لاکھوں کے ملبے پر اداس بیٹھا ہے ۔
چونکہ بلحاظ تخمینہ نانا کا نقصان سب سے بڑا تھا لہذا ان کا انٹرویو  شائع ہوا تھا ۔۔برسوں تک یہ اخبار ہم نے اپنے گھر میں دیکھا پھر نہ جانے کہاں چلا گیا ۔۔کچھ رشتہ داروں نے جو قیام پاکستان پر ناخوش تھے وہ نانا کو کوچتے تھے:
''،،،،،اور بناؤ پاکستان ۔!۔''  
نانا مسلم لیگ کے کارکن تھے چنانچہ قائد اعظم کے بارے میں ہتک آمیز الٖفاظ کہہ کر نانا کواشتعال دلاتے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے کہ ہندوستان سے سب کچھ چھوڑ کر آنے کی حماقت کیوں کی ؟ ۔۔۔۔۔ان ساری بحثوں کو دہرانے کا فائدہ  ہےبھی نہیں اور اصل میں کچھ یاد بھی نہیں ہے  سوائے ایک جملے کے جو نانا جان اکثر دہراتے تھے
" ،،،،مشرقی پاکستان میں (مجیب )   مکتی باہنی لوگوں کو قتل کر رہی ہے اور یہاں ہمیں در بدر کیا جارہا ہے ،،،،’'
۔۔۔بہر حال کچھ دن وہ ہمارے ساتھ رہے پھر ناظم آباد میں اپنا مکان  کرایہ دار سے خالی کروا کر وہاں شفٹ ہوگئے  ،مگر اس کے بعد انہیں بیماریوں نے ایسا گھیرا کہ وہ پلاٹس جو انہیں مداوے کے طور پر ملے تھے ڈاکٹرز کے بلوں کی ادائیگی میں خرچ  کرکے  یکے بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہوگئے اوریہ مکان کرایہ داروں کے ہتھے چڑھ گیا ( ضیا الحق کی کرایہ داروں کی حق میں پالیسی نے اس پر قبضہ کی راہ ہموار کر دی تھی)۔دو منزلہ عمارت کے 4 رہائشی یونٹس پر  ملکیت کا دعوی مضبوط مگر ہمت پست ہوچکی تھی۔ 20 سال کی طویل عدالتی جنگ کے بعد وارثوں نے کرایہ داروں کو لاکھوں روپے  دے کر خالی کروا یا  ( عدالتی نظام کی ناکامی !) ۔۔ اس وقت تک ورثاء اپنے اس ترکے سےخاصے بے نیاز ہوچکے تھے ۔
بچپن کی یاد اور  اپنی ماں کے ذکرسے پہلو تہی ممکن نہیں لہذ ا متعلقہ بات تو کر نی ہوگی !!حیرت کی بات ہے کہ ہم نے اپنی ماں کے منہ سے اپنے اس گھر کی باتیں تو بارہا سنیں جو وہ ہجرت پر چھوڑ آئی تھیں ۔۔۔یعنی وہ کارنس پر سجی گڑیاں ، صحن میں رکھے گھڑے اور بیٹھک میں لگے قد آدم گھڑیال ۔کی باتیں تو کرتیں  مگرہم نے کبھی ان نقصانات پر کوئی خاص باتیں نہ سنی!  امی ایک جذباتی خاتون تھیں  مگر ان کی حساسیت کا انداز بالکل جدا تھا ! ان کی الماری میں بہت سی ایسی چیزیں نظر آتیں جن سے کھیلنے اور استعمال کرنے پر ہم بہت للچاتے۔وہ ہمیں دے تو دیتیں مگر ساتھ یہ بھی بریف کرتیں ۔یہ فلاں ٹیچر نے شادی میں تحفہ دیا تھا ! ایک کالا مخمل کا موتیوں سے سجا پاؤچ  جس کے بارے میں معلوم ہوا کہ اسٹاف نے دیا تھا انہیں بہت عزیز تھا ! بہت سے برتن اور ڈیکوریشن کسی نہ کسی سر یامس کی یاد دلاتا جو نشتر ماڈل اسکول سے تعلق رکھتا تھا !
اب اس تحریر کو قلم بند کرتے ہوئے سوچ رہی ہوں کہ کیا انہیں بلڈوز ہونے والے گھر کی دیواریں نہیں یاد آتی ہوں گی جس کو انہوں نے درجہ بہ درجہ قائم ہوتے دیکھا تھا ؟ کھجور کا وہ درخت  اور مختلف بیلیں اور ہر یالی جو ان کی والدہ اور دادی نے اگا رکھی تھیں انہیں نہیں یاد ہوگا ؟ اسکول کا میدان جہاں ان کی شادی کے بعد استقبالیہ دیاگیا تھا  شاہراہ قائدین سے گزرتے ہوئے انہیں یاد نہ آتا ہوگا !
  ہماری ماں کا جذباتی پن چیزوں اور زمین و  جائیداد کے بجائے افراد اور تعلقات سےجڑا  تھا ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس پر گفتگو کم سے کم رہی اور ہمارے ذہنوں سے بھی وہ عمارت محو سی ہوگئی اور ہم کسی نقصان کے احساس کے بغیر بڑے ہوگئے !  وہ تو برسوں بعد ہماری چھوٹی بہن کی ایک سسرالی  عزیزہ کی شادی ہمارے ننھیالی خاندان میں ہوئی تو انہوں نے شاہراہ قائدین سے گزرتے ہوئے ہماری امی کا نام لے کر  اپنی بیگم سے کہا  کہ یہاں سے یہاں تک روڈ ان کی تھی تو اس بے چاری کا منہ  حیرت سے کھلا رہ گیا کہ بھابھی ( ہماری بہن ) نے تو کبھی نہیں بتا یا ۔۔۔؟ الحمد للہ !زمین اور جائیداد سے اغماض ہم سب کی فطرت میں ہے ۔ بات امی کی جذباتیت کی کرنی ہو تو یہ واقعہ لکھے بغیر نہیں رہ سکتی ۔۔کہ ناظم آباد کے مکان پر برسوں قابض رہنے والے ڈاکٹر کے نوعمر بیٹے کی (جومیڈیکل کا طالب علم تھا  ) حادثے میں موت کی خبر پر امی نے دل پکڑ لیا تھا اور رو رو کر کہہ رہی تھیں  کہ ہم نے تو بد دعا نہیں کی تھی اللہ ! بار بار اس بچے اور اس کی ماں کا نام لے کر سسکتی رہیں ۔۔۔ہمارے لیے یہ بات بڑی ہکا بکا ہونے والی تھی کیونکہ اس ڈاکٹر نے مقد مے کے دوران  نہ صرف  زبان سے بہت تکلیف دہ بات کہی تھی بلکہ ہزاروں روپے لے کر مکان خالی کیا تھا ۔۔زبان سے نہ کہی جائے مگر مظلوم کی آہ تو اللہ تک ضرور پہنچتی ہے !
عزیز قارئین ! یہ تحریر نہ تو ہمدردی  حاصل کرنے لیے لکھی گئی ہے اور نہ ہی اپنے خاندان کی بڑائی بیان کر نے کے لیے ! بلکہ تجاوزات کو ہٹانے کے ظالمانہ طریقے پر بے روز گار اور بے گھر افراد کی بے بسی کا سوچ کر کچھ یادیں شئیر کی ہیں  جن کو ضبط تحریر کرنے میں تو شاید وقت لگا ہو مگر یادوں کی چلمن ہٹانے کی دیر تھی اور  آنکھوں کے سامنے ویڈیو کی صورت میں سارے مناظر گھوم گئے ! 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فر حت طاہر
کراچی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں