اتوار، 7 اکتوبر، 2018

میرا ماحؤل میری ذمہ داری


    




                           میرا ماحول  میری ذمہ داری                               
 
تین پیریڈ تک بچوں کو پڑھا کر اپنے فارغ پیریڈ کی خوشی لیے میں ٹی روم کی طرف بڑھی۔صاف ستھرے کوریڈورز سے گزرنے کے بعد باہر کی طرف جہاں بچوں کے کھیل کی جگہ ہے،درختوں کے نیچے بھی ایک نظم اور تر تیب نظر آئی ماحول پر سکون تھا اور کلاسز سے بچوں کی دھیمی دھیمی آوازیں ایک خاص ردہم پیدا کر رہی تھیں۔ طمانیت بھرے اس پیریڈ کے بعد وقفہ تھا جس میں اسکول بچوں کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ نظم و ضبط کی ذمہ داران اساتذہ اور معاون طالبات اپنی ڈیوٹی سر انجام دینے لگیں جو وقفہ ختم ہونے کی گھنٹی کے ساتھ ہی ایک نئے انداز میں بدلا اور اساتذہ کے گروپ کے ساتھ میں بھی اپنی کلاس لینے چل پڑی۔خوش گپیوں میں چلتے چلتے جو نظر پڑی تو سٹی گم ہوگئی۔ اب منظر بدلا ہوا تھا۔جہاں وقفے سے پہلے محض پھول اور درختوں کی چند پتیاں نظر آئی تھیں اب ہر قسم کے ریپرز سے اٹا ہوا تھا!
سوچا کہ کینٹن والے کو جا کر بتاؤں کہ آج آپ کی کتنی آمدنی ہوئی ہے؟ کتنے  بسکٹ، چپس، چاکلیٹ، ویفرز،کولڈ ڈرنک....وغیرہ وغیرہ! سارے ریپرز گننا مشکل تو تھا مگر ناممکن نہیں!  ذہن میں خیال آیا کہ چھوٹی کلاسز میں گنتی کرانے، چیزوں میں فرق، مختلف اشیاء کو علیحدہ کرنے کی سر گرمی ان ریپرز سے کتنی اچھی طرح کروائی جاسکتی ہے مگر جس طرح وہ گیلے کوڑے سے لتھڑی ہوئی تھی یہ بات ناممکن تھی اور مزیدیہ کہ صفائی پر مامور خواتین اسے کنگ سائز جھاڑؤں کے ذریعے ہر قسم کے کوڑے کوکوڑے دان میں دھکیل رہی تھیں یہ بات صرف سوچی ہی  جا سکتی تھی۔اسکول میں موجود تمام کوڑے دان ابل ابل کر اس ماحول کو آلودہ کر رہے تھے جو محض گھنٹہ بھر پہلے فطرت سے ہم آہنگ تھا۔
اس منظر نے  ایک تحریک پیدا کی اور جیسے ہی اسکول اسمبلی کی باری آئی ”صفائی نصف ایمان ہے“  کی حدیث کو تھیم بنا کر کچھ بریفنگ رکھی
 اور ساتھ ساتھ بچوں کو کچھ پراجیکٹ بھی دیے۔ان میں سے ایک تھا کہ آپ جو بھی چیز کھائیں اس کے ریپر کو تہہ کر کے ربر بینڈ سے باندھتے چلے جائیں اور ہفتے بھر بعد ایک جگہ جمع کردیں تو یہ یہ ڈھیر ردی میں بک جائے گا!  ایک مشہور NGO کا تھیم ہے
                                       ردی کو سونے میں بدلیں!“ 
ایک تقویت بخش خیال تھاجو آپ کی داد کا مستحق ٹھہر تا.....مگر یہ منصوبہ ناکام ہوا کہ ایک تو اسکول انتظامیہ کے سامنے والدین کی شکایات آنے کا خدشہ (ہم بچوں کو اسکول پڑھنے بھیجتے ہیں کوڑا چننے نہیں!)دوسرے صفائی پر مامور خواتین کی ہڈ حرامی کا  خد شہ ...اور اس سے بڑھ کر اساتذہ کا عدم تعاون!...ہوں! ہم تنخواہ پڑھانے کی لیتے ہیں ماحول کی نگرانی کی نہیں...دلچسپ بات کہ یہ وہی ٹیچرز تھیں جوبچوں کو سائنس کے مضمون میں ماحول پر سبق پڑھا تے ہوئے تین الفاظ رٹوا رہی تھیں! کون سے الفاظ؟ اس کے لیے آپ کو مکمل بلاگ پڑھنا پڑے گا!
آئیے ایک اور منظر اپنے زمانہ طالبعلمی کا دکھاتے ہیں!  سالڈ ویسٹ پر لیکچر سننے کے بعد ہم سب اگلی کلاس کے منتظر تھے۔ایک دم کلاس فیلو صباحت کے ہسٹیریائی انداز میں چیخنے پر ہم سب متوجہ ہوئے:
 ”...اف !  اس حساب سے اگر زمین پر کوڑا کرکٹ بڑھتا رہا توبیس سال بعد ہماری اگلی نسلیں کہاں ہوں گی؟ ہم ان کے لیے کیسا ماحول چھوڑ رہے ہیں؟..ہم کہاں ہوں گے...!“ 
  ”...کہیں نہیں!! ہم extinct   (ناپید)  ہوچکے ہوں گے...یا پھر endanger species (معدومیت کے خطرات سے دوچار  نسل) بن چکے ہوں گے...“
بات قہقہوں اور مذاق میں اڑادی گئی مگر اس کا خوف زدہ چہرہ آج بھی نظروں میں ہے اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر دیکھتے ہوئے ہوئے سوچتے ہیں وہ کہاں ہوگی؟کیا کر رہی ہوگی؟ کہیں ناپید تو نہیں ہوگئی  بے چاری!
تلمیذ فاطمہ کا ذکر بھی اس ضمن میں ناگزیر ہے جس کے ساتھ فکری اور علمی بحثوں کے درمیان مادی  ترقی کے حوالے سے پولی تھین بیگز کے متبادل نہ ہونے پر تشویش کا اظہار ہوتا تھا! سوچوں کے بھنور میں اپنے کزن کا چہرہ ابھرتا ہے جو شپ سے واپسی پر دوستوں اور رشتہ داروں کے اپنے گھر والوں کو بھجوائے گئے سوٹ کیس میں بھرے سفید سفید پیکٹ دیکھ کر حیرت کا اظہار کرتے تھے! کچھ اندازہ لگایا؟ جی ہاں ڈائیپرز!  اس کی ایجاد سے پہلے گویا بچے فارغ ہی نہیں ہوتے تھے ! یہ ضروریات زندگی میں اس طرح داخل ہوئے کہ اہل کراچی کی ہڑتال کے دوران ہنگامی فہرست میں غذا اور ادویات کے ساتھ پیمپرز کی خریداری بھی لازمی تھی۔ اور یہ ایک منافع بخش آئٹم بن چکا ہے۔والدین کی محبت کے اظہار کی علامت! ایک دفعہ گھرمیں کام کر نے والی خاتون اپنی بہن کو لائیں جس کی گود میں چھوٹا بچہ تھا۔معلوم ہوا شوہر سے جھگڑ کر آئی ہیں.جو اپنے بچے کا بالکل خیا ل نہیں رکھتا..اب وہ نوکری کر کے بچے کے لیے سیریلیک اور پمپرز خریدے گی۔۔یقینا جھگڑے کی وجوہات اور بھی ہوں گی مگر سر فہرست پیمپرز کی فراہمی تھا۔
ایک نامور شخصیت مسز نسیمہ تر مذی ”اللہ معاف کرے“ کے نام سے جنگ میں کالمز لکھا کرتی تھیں۔وہ سبھی نے پڑھے ہوں گے اور سر دھنا ہوگا مگر ہم نے اپنی آنکھوں سے انہیں ردی کاغذکے ٹکڑوں کو بطور رائٹنگ پیڈ استعمال کرتے ہوئے دیکھا تھا اور اپنایا بھی ہے کہ ہماری پرائمری اسکول  پرنسپل مسز شاہ ہمیں کاغذ پھاڑتے دیکھ کر آگ بگولہ ہوجاتی تھیں .....(.. مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا ہے۔اب ہمیں کاغذ نہیں ملے گا!)...رقیہ آنٹی مرحومہ بے کارگتے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر رکھتی تھیں اور کھانا پکانے کے دوران بار بار نئی ماچس جلانے کے بجائے انہیں استعمال کرتی تھیں۔نہ جلی ہوئی ماچسوں کا ڈھیر نظر آتا نہ ہی....جی ہاں! ماچس ہو یا کاغذ دونوں درخت کاٹ کر حاصل کیے جاتے ہیں۔انسان اور جانور تو کنزیومر ہیں۔درخت ہی تو پروڈیوسر ہیں! ماحول کے تحفظ اور غذا کی فراہمی کے ذمہ دار!اب تو آپ کو وہ تین الفاظ بتادینے چاہییں جو ہم نے اسکول کے ذکر میں کیے تھے!  وہ ہیں...

REDUCE, RECYCLE and REUSE  
ہماری اب تک کی گفتگو کو بھی آپ ان ہی تین عنوانات کے تحت سمجھ سکتے ہیں!
REDUCE یعنی کوڑے کرکٹ کی مقدار کم سے کم ہو
! RECYCLEیعنی ایک چیز کی شکل بدل کر استعمال کی جائے!
REUSE   یعنی کسی بھی چیز کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے!

ماحول کے تحفظ سے متعلق بے شمار تجاویز، مشورے، نصیحتیں، طریقے لکھے جاسکتے ہیں۔ اگر انٹر نیٹ کھولیں تو اعداد و شمار، ویڈیو، اور مضامین کی بھر مار ملے گی مگر ہم نے اس سے اپنے مضمون کو سجانے کے بجائے محض سر سری طور پر مشاہدات اور تجربات کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ اپنی تحقیقی رپورٹوں اور معلومات کا سہارا بھی نہیں لیا ہے بلکہ انفرادی اور ذاتی تاثرات کے ذریعے بات کہنے کی کوشش کی ہے۔اداروں کو ان کی ذمہ داری ادا نہ کرنے پر کوسنا بہت آسان ہے مگر ہر کام حکومت پر چھوڑناایک معقول رویہ نہیں ہے بلکہ بحیثیت ایک فرد اور متمدن شہری ہم سب کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے حصے کا کام ضرور کرے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
   فر حت طاہر 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں