منگل، 26 جون، 2018

جوش قدح سے بزم چراغاں کے منتظر !


       


                                                                                                                                        
      ٭  ہم جو سوچا کرتے ہیں ۔۔۔ وہ لوگ کیا کرتے ہیں !

21 جون ِ، سال کا طویل ترین دن !   بہر حال  ایسا بھی نہیں کہ 48 گھنٹے کا ہوگیا ہو ! لیکن مصروفیات کا شیڈول  تو کچھ اسی طرح سامنے آرہا تھا کہ جیسے ایک دن میں کئی دن گزارنے ہیں صبح ایک تعزیت،دوپہر میں ضروری خریداری ،سہ پہر کی دو تقریبات تهیں:
ایک بیرون شہر سے آئی ہوئ  مصنفہ  قانتہ رابعہ کے ساتھ نشست اور دوسری عید ملن پارٹی جسے انتخابی مہم کے طور پر برتنا تھا ۔کارنر میٹنگ سمجھ لیں ! .رات کو ولیمہ میں شرکتاوپر سے خواب آور موسم میں نیند کا زور اور ظالم مرطوب بھی ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہر موقع پر لباس کی تبدیلی پر مجبورتهے  ! نہلے پر دہلا الیکشن کی قربت کے باعث اپنی ذمہ داریوں کے حساب سے حاضر باش  رہنا اور رکهنا ..
انسان تو انسان ہے !نازک ہے پرwarm blooded ہونے کے ناطے  ڈهیٹ بهی بہت ہے !.موسم اورحالات کے لحاظ  سے اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہےچنانچہ صبح سے ہی  دعا کے سہارے پھرتی کا مظاہرہ شروع کردیا ..
 اصل چیلنج   سہ پہر کی تقریبات میں تھی .کم و بیش ایک ہی اوقات میں اتنے فاصلوں کے ساتھ دونوں جگہ اپنی حاضری کو ممکن بنانا ! خیر سوچ و بچار سے اس کا بھی حل   نکل آیا ..یعنی دونوں میں شرکت کی کوشش 
قانتہ رابعہ سے  واقفیت بذریعہ ان کی تحاریرتو برسوں سے تھی مگر ذاتی راہ ورسم اجتماع عام سے ہوئی جسے واٹس آپ کی سہولت  نے مستقل رابطہ کی شکل دے دی ہے .۔عید سے دو دن قبل ان کا میسج آیا کراچی آرہی ہوں .مگر اس میں ملاقات کا امکان بہت کم جهلک رہا تھا. اور یہ معلوم ہو نے کے بعد کہ محض 3 دن  کا پروگرام ہے ملنے کی امید بالکل معدوم ہوگئی ..ظاہر ہے کچھ ذاتی پروگرام سے آئی ہوں گی !! مگر پھر عید کے چوتھے دن میسج آیا!  حریم ادب کی طرف سے ان کے اعزاز میں تقریب کی اطلاع! دل خوشی سے معمور ہوا مگر جگہ اور دن دیکھ کر الجھن کا شکار بھی.
مگر ٹھیک 3.30 پر جب ہم ادارہ کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے معصوم سے بچے کی تلاوت کانوں میں سنائی دی .یقینا یہ پروگرام کا آغاز تھا ..تلاوت کے بعد نعت پڑهی گئی  اس دوران مہمان خصوصی قانتہ رابعہ تشریف لا چکی تھیں۔ ..بیرون شہر کی مصنفات کے ساتھ نشست منانے کا آغاز کب سے ہوا؟ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا ..
ماضی قریب 2012 کی بات ہے ..صائمہ اسما ( مدیرہ بتول ) اپنے شوہر کے ہمراہ  کراچی آئی ہوئی تھیں جو ایک ورکشاپ کے لیے تشریف لائے تھے. .پچھلی نشستوں پر ساتھ بیٹھی ہوئی رائٹرز فورم کراچی کی نگران کو ایک نوٹ لکھ کر متوجہ کیا .
"صائمہ اسما کراچی میں ہیں !                            موقع سے  فائدہ اٹھا کر ا ن کے ساتھ ایک نشست رکھ لی جائے! "
 (یہ نوٹ اب بھی پرانی ڈائری میں موجود ہے ) اس کے جواب میں اس نے ہمیں ایسی اجنبی نظروں سے دیکھا گویا ہم نے کسی نامعلوم زبان میں لکھا ہو یا دہشت گردی کا کوئی اشارہ ہو! خیر کچھ عرصے بعد رائٹرز فورم کے سالانہ اجلاس کے موقع پر صائمہ اسما کو بطور خاص لاہور سے بلوایا گیا تو ہمیں اپنے اسی نوٹ کا کارنامہ محسوس ہوا .
پهر اپریل 2014ء کی بات ہے جب حریم ادب کی ذمہ داری سنبھالے چند ہفتے ہی ہوئے تھے .صائمہ اسما کا فون آیا کہ دو دن کے لیے کراچی آرہی ہوں اگر باہم  ملاقات کا انتظام ہو سکے توَََََََ۔۔۔؟  دل اس بات پر جھوم اٹھا !  اور محض دو گھنٹے کے نوٹس پر ہم نے نشست طے کر لی ۔ جلدی یوں بھی تھی کہ اسی لحاظ سے صائمہ اسماء کو اپنی واپسی کی بکنگ کروانی تھی ۔اپنی پھرتی پر خود کو داد کہ اس زمانے میں واٹس اپ  گروپس کی سہولت اتنی عام نہ تھی لہذا متعلقہ افراد سے بذریعہ فون ہی رابطہ کرنا تھا ۔۔اور یوں بظاہر ایک ناممکن نشست منعقد ہوسکی جو اس وقت کی ناظمہ صوبہ افشاں نوید جو خود ایک علمی اور ادبی شخصیت ہیں   کےتعاون کے بغیر ممکن نہ تھی !  قلم کار بہنوں نے غیر معمولی دلچسپی لے کر اسےکامیاب بنا یا اور  یوں ایک غیر رسمی نشست کی بنیادوجود میں آئی ۔اس کی روداد ایک شام گل دوپہر کے نام سے شائع ہوئی تھی ۔۔شرکاء برسوں اس کےخمار میں رہے تو شریک نہ ہونے والے افسوس کا شکار !۔۔
یادوں کی پٹاری میں ایک چمک دار سا موتی ابھرتا ہے !
یہ ہے اجتماع عام 2014 ء جو نومبر کے آخری ہفتے میں مینار پاکستان تلے منعقد ہوا ۔ اس میں  شعبہ حریم ادب کے تحت اسٹال پر پورے پاکستان سے آئی ہوئی ادبی شخصیات  کے باہم ملاقات کا انتطا م تھا ۔اس کے علاوہ ایک ادبی نشست رات گئے منعقد ہوئی جس میں بھی مصنفات اور شاعرات ایک دوسرے سے واقف ہوئے ۔ 
http://www.qalamkarwan.com/2014/12/shauq-ki-shidat-ko-aazmana.html
دلچسپ بات یہ تھی کہ کراچی سے آنے والے بیشتر افراد بھی پہلی دفعہ بالمشافہ ملاقات کر رہے تھے۔ اس تقریب سے اتنی مہمیز ملی کہ حریم ادب پاکستان کی اولین نگران عذرا جمال  کی صاحب زادی انجم خالق نے اپنے گھر ایک ادبی نشست رکھنے کا پروگرام بناڈالا اور یہ محض سر سری بات نہیں تھی بلکہ اس کو فوری عملی جامہ  بھی  پہنا ڈالا ۔  جنوری 2015 ء میں ایک خوبصورت تقریب منعقد ہوئی ۔جس میں جنوب سے شمال اور شرق سے غرب تک کراچی کی ادبی شخصیات جمع تھیں ۔ شرکاء کا اصرار تھا کہ ہر ماہ نہ سہی تو ہر تین ماہ پر ایسی بیٹھک  ہو ! بات سالانہ پر آگئی کیونکہ کراچی کے فاصلے اور مصروفیات  اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دیتے  ۔۔۔ویسے سالانہ بنیاد پر تو انعقاد ہوتا ہی ہے مگر تقاضہ  باہم ملاقات اور غیر رسمی  تقریب کا تھا ! 
جی ہاں ! اور یہ وضاحت بھی بہت ضروری ہے کہ یہ ساری روداد اسی حوالے سے ہے ورنہ بیرونی سرکل کو راغب کرنے کے لیے تو ڈھیروں کاوشیں بہت جانفشانی سے  حریم اد ب  آئے دن کرتا رہتا ہے !
یادوں کے سلسلے کو  جوڑتے ہوئے آگے بڑھتےہیں !!
یہ ہے 2016ء ! 27/  جولائی کو  قانتہ رابعہ  کے اعزازمیں تقریب منعقد ہوئی جس میں اہل کراچی کی باذوق خواتین جوق در جوق شریک ہوئیں ۔پھر 2/3 ستمبر صائمہ اسماء کے ساتھنشست رہیں ۔ عید الاضحیٰ  سے متصل  ہونے کے باوجود قارئین بتول اپنی مدیرہ  کی پذیرائی کو موجود تھیں ۔ پھر اکتوبر 2017ء میں صائمہ اسماء کے ساتھ  فاران کلب میں  خوب صورت رنگا رنگ غیر رسمی  محفل رہیجس کی ہنگامی بنیادوں پر انعقاد  واقعی حریم ادب داد کا مستحق ہے ۔ 24 نومبر  2017 ءکو کاشانہ اسماعیل  میں کراچی کی قلم کار بہنیںصائمہ اسماء کے ساتھ زانوئے تلمذ طے کر رہی تھیں اور اب 2018 ء میں شوال کی 6 تاریخ قانتہ کے ساتھ عید ملن منانی تھی ! !
اور  ہم اس تقریب میں موجود تھے  جس میں آہستہ آہستہ شرکاء تشریف لارہے تھے اور فرشی نشست تنگی داماں کا شکار تھی ۔ میزبان ثمرین احمد نے ہمیں مہمان خصوصی کے برابر میں خالی کرسی پر براجمان کر کے الجھن میں ڈال دیا تھا ۔ذہن میں کھچڑی سی پک رہی تھی اور اس پر مائک اچانک سے ہاتھ میں دے دیا جائے تو خدشہ ہوتا ہے کہ دوسری تقریب  کے لیے سوچے گئے جملے یہاں نہ دہرادیں ۔ کاش منتظمین چائے پہلے ہی پلوانے کا انتظام کردیتے مگر خیر رہی اور ناگفتنی نہ ہوسکی حتی کہ ہماری روانگی کا وقت آگیا ۔جی ہاں ! یہ ہی پروگرام سوچا تھا کہ 5 بجے دوسری تقریب میں شریک ہوں گے !
ایک بھری محفل سے اٹھنا آسان نہیں تھا ۔بہت سے چہرے رو برو  تھے جن سے عید کا سلام لینا اوردینا تھا مگر اس ٹھسا ٹھس بھرے ہوئے ہال میں یہ ناممکن تھا اور یوں ہم تشنگی لیے سیڑھیاں اتر آئے ۔ بہت سے شناسا تو ہماری روانگی کے بعد ہی پہنچے تھے ! رات کو تقریب  کی روداد پڑھ کر ہمیں بھی خیال آیا کہ کچھ اس کاحوال درج کریں !
اہل کراچی سمندر کے کنارے رہائش پذیر ہونے کے باعث  اس جیسی کشادگی اور وسعت دل بھی رکھتے ہیں لہذا ادب کی پرورش میں ہر بار مہمان نوازی خوب نبھائی ! حریم ادب اپنی موقع شناسی پر بجا طور پر تحسین کی مستحق  کہ انتہائی مختصر عرصے میں بھی تقریب کا انتظام کر لیتی ہے ! اس بہانے کراچی والے بھی ایک دوسرے کی دید حاصل کر لیتے ہیں !
حریم ادب اور شعبہ نشر و اشاعت کی نظر کرم اہل کراچی پر کب ملتفت ہوتی ہے ؟ سب منتظر ہیں جوش قدح کو بزم چراغاں کر نے کو ! کسر نفسی سے قطع نظر ہر فرد جواہر سے کم نہیں ! 
٭ فرحت طاہر ٭





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں