منگل، 26 جون، 2018

عید،عیدی اور مہرو باجی

٭ عید ، عیدی اور مہرو باجی ٭
کچھ خاص مواقع کسی شخصیت کے حوالے سے بڑے یاد گار ہوتے ہیں ! کچھ ایسا ہی معاملہ مہرو باجی کاہے ! یہ کون ہیں ؟ آپ نہیں جانتے مگر ہم نے اپنی آنکھیں کھلتے ہی انہیں اپنے گھر دیکھا تھا ۔بلکہ ہماری امی کا کہنا تھا وہ شادی کرکے آئیں تو ایک ننھی منی دس بارہ سال کی بچی کو اپنا استقبال کرتے پایا ۔آج سے نصف صدی قبل اس عمر کی بچی پورا گھرانہ سنبھالنے کے قابل ہوتی تھی ننھی منی ہر گز نہیں ہوتی تھی  ! جی ہاں ! درست بات یہ ہے کہ  ننھی منی وہ  در اصل اپنے  قد و قامت کی وجہ سے نظر آتی تھیں ۔ ان کا مختصر قد ہمیشہ ان کی پہچان رہا !ان کی دوسری امتیازی صفت ان کی کم گوئی تھی !
یہ تھیں مہرو باجی !ہماری پھوپھی زاد بہن کہ جن کو جنم دیتے ہی ہماری پھو پھی اس جہاں فانی سے کوچ کر گئیں ۔دادی جان جنہوں نے ایک سال قبل اپنی بیٹی کو رخصت  کیا تھا اس کی ننھی نشانی کو کلیجے سے لگاکر گھر لے آئیں بعد ازاں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئیں ۔یوں وہ  ہمارے گھر کا حصہ بن گئیں ۔ امی کا کہنا ہے کہ ہم سب کو سنبھالنے میں وہ ان کی بہت معاونت کرتی تھیں ۔ کہیں جانا ہو تو تیار کرنا ، اور اگر ان پر چھوڑ کر جائیں تو پیچھے  خیال رکھنا ! سال میں کچھ ماہ دادی بڑے ابا کے گھر حید رآباد جاتیں تو وہ بھی ہمراہ جاتیں ۔۔وہاں بھی بچے ان کے منتظر ہوتے ! وہ بچوں میں بہت خوش رہتیں !
 اور پھر وہ ایک دن بیاہ کر سکھر چلی گئیں ۔ یقینا ہم نے ان کی کمی محسوس کی ہوگی جو یاد داشت میں نہیں ہے مگر یہ یاد ہے کہ جب سال بھر بعد وہ آتیں تو ہم سب کی خوشی دیدنی ہوتی ! اب ان کے ساتھ ظفر بھائی بھی ہوتے جو ہم سب کو باجی کی طرح ہی عزیز رکھتے ۔ ہماری دلچسپی کی چیزوں کا خیا ل رکھتے ۔ان کی لائی ہوئی چیزیں اپنی سہیلیوں کے سامنے فخر جتانے میں استعمال ہوتیں ۔باجی سسرال میں بھی بچوں کی دیکھ بھال کا فریضہ بڑی خوش اسلوبی سے ادا کرتیں ۔ چھوٹے دیوروں  اور نند کا ایسے خیال رکھتیں جیسے ہمارا رکھتی تھیں ۔نہلانے سے لے کر بال بنانے تک ! نوالہ منہ میں ڈالنے سے لے کر ساتھ کھیلنے تک ! یہاں کی جگت باجی وہاں کی بھابھی قرار پائیں ! بڈھوں سے لے کر بچوں تک کی بھابھی  تھیں ( حتی کہ ان کے سسرالی بچوں کے بچے بھی انہیں اسی لقب سے پکارتے ! )
ایک دفعہ ان کی آمد سے قبل کی رات یاد آرہی ہے جب سلمہ اور عائشہ کے گھر جاکر انہیں  باجی کی آمد کی بابت بتا یا تھا اورتجسس کی وجہ ان کا منا تھا جسے دیکھنے کے لیے ہم بے چین تھے ۔(  اپنے گھر میں چھوٹے بڑے دو منے موجود تھے  مگر باجی کے  منے کی بات کچھ اور تھی )۔
وقت آگے بڑھا ! ۔اور ہم بھی بڑے ہوتے گئے ان کی بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ۔اب ہم ان کا بے چینی سے انتظار نہیں کرتے تھے بلکہ سچ پوچھیں تو ان کی واپسی کے منتظر رہتے ! یہ ایک قدرتی بات تھی ۔ بچے بڑے ہونے لگتے ہیں تو ان کی دلچسپی کا دائرہ تبدیل ہونے لگتا ہے اور روک ٹوک بر داشت نہیں ہوتی چنانچہ بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہ ایک دور ہوتا ہے جو گزر جاتا ہے اور پھر شعور آنے پر رشتہ داروں سے تعلق کی اہمیت کا احساس جاگتا ہے ۔ اور اگر تھوڑی بہت بھی  دینی سمجھ آجائے تو انسانوں سے محبت پیدا ہونے لگتی ہے اور مہرو باجی تو تھی ہیں اتنی پیاری شخصیت ! اور پھر وہ کراچی شفٹ ہوگئیں !  
ہمارے گھر ہر مر حلے پر ان کی موجودگی لازمی تھی اور ان کو بڑی بیٹی کی سی حیثیت حاصل تھی ۔ ایک دفعہ ہم گھر آئے تو امی نہیں تھیں  بلکہ مہرو باجی موجود تھیں ! زیادہ اچنبھے کی بات یہ تھی کہ وہ ہمارا خیا ل اس طرح رکھ رہی تھیں جیسے بچپن میں کرتی تھیں ۔ ہم ان کی اس روش پر حیران تھے اور پھر معلوم ہوا کہ ہمارے خالو جان کے  انتقال کی خبر آئی   تو امی پریشان کہ ہم سب پڑھنے گئے ہوئے تھے اسی وقت اچانک سے باجی آگئیں اور امی اطمینان سے  گھر ان کے سپرد کر کے خالہ کے گھر چلی گئیں ۔اور باجی نے ہمیں کھانا وغیرہ کھلا کر اطلاع دی ۔ ایسے بہت واقعات تھے جب کسی بھی مشکل وقت میں وہ حاضر ہوگئیں ۔ہمارے گھر کی ہر تقریب میں ان کی شرکت وقت سے بہت پہلے لازمی تھی اور یہی حال ہمارے بڑے  ابا کی فیملی کا تھا !
 بظاہر غیر جذباتی تھیں یعنی اپنے جذبات کا اظہار مشکل سے کرتی تھیں ۔مگر ایک  دفعہ امی کے ساتھ ہم بد تمیزی پر امی کی افسردگی دیکھ کر وہ بہت بے چین تھیں ۔بالآ خر کچن میں میرا ہاتھ تھام کر دھیرے سے بولیں 
تمیں اللہ نے ماں دی ہے اس کی قدر کرو ! مجھے دیکھو میں نے تو اپنی ماں کو دیکھا تک نہیں ۔۔۔! اس وقت لائٹ نہیں تھی چنانچہ اندھیرے کی وجہ سے میں ان کے تاثرات دیکھنے سے قاصر تھی مگر ان کا لہجہ بتا رہا تھا کہ رو رہی ہیں ۔۔! اور ان کےالفاظ کے زیر وبم نے ان کے غیر جذباتی ہونے کے  ہمارے تاثر کی نفی کردی ۔
 وقت اور آگے بڑھا ! وہ اپنے بچوں کی شادیوں سے فارغ ہو کر نانی ، دادی بن گئیں مگر ہم سب سے ان کا تعلق اسی طرح برقرار رہا ۔ وہ جب آتیں کچھ نہ کچھ چیزیں ایسی لاتیں جو دیکھ کر ہماری ہنسی چھوٹ جاتیں مگر یہ ان کی محبت کا اظہار تھا۔ان کے شوہر حج سے واپسی پر  آئے تو جہاز میں اور تبرک میں ملنے والی بہت سی بسکٹ ،ٹافیاں وغیرہ لائے جو اپنے خاندان کے بچوں میں تقسیم کیے اور ہماری پیاری باجی ان کا ایک بڑا حصہ ہمارے گھر کے بچوں کے لیے بھی لائیں ۔بظاہر یہ چھوٹی  چھوٹی چیزیں  ان کے ہم سے تعلق کی علامت تھا!
زندگی میں مزید تبدیلیاں آئیں ۔جب ہمارے والدین ایک ایک کر کےاس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ اور پھر یہ گمان آیا کہ وہ بڑوں کی وجہ سے وقتا فوقتا اور خصوصا عید کے موقع پر ملاقات کو آتی تھیں اب شاید نہ آئیں ۔مگر گمان غلط ثابت ہوگیا جب عیدکے دوسرے دن  ان کی آمد اسی طرح لازم و ملزوم  رہی جیسے ہمارے والدین کی موجودگی میں رہی تھی ۔حالانکہ ہمارے گھر میں بہت سی تبدیلیاں در آئیں مگر ان کا معمول وہی رہا ۔عید کادوسرا دن وہ ہم سب کے ساتھ گزارتیں ۔اور یہ ان کی نفسیاتی مجبوری تھی کہ  ان کا  میکہ سلامت ہے ! ہم سب اس کے عادی ہوگئے تھے کہ عید اور بقر عید د کی دوپہر وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہمارے گھر کھانا کھائیں گی  اور ہم سب کو عیدی سے نوازیں گی ۔
عزیز قارئین !
اب ہم اپنےمضمون کے عنوان کے قریب پہنچ چکے ہیں ! جی ہاں ! اب عمر کے اس حصے میں وہ واحد رشتہ  دار تھیں جو ہمیں عیدی سے نوازتیں ! سب کو 100 روپے مگر مجھے علیحدہ سے 100 مزید دیتیں کہ چوڑیاں لے لینا !
بچوں کی شادیوں اور بیرون ملک روانگی کے بعد اب محض  وہ اور ان کے شوہر ہی  ہمارے عید کے مہمان ہوتے مگر روٹین  برقرار رہا ۔2016ء کی عید کا دوسرا دن ان کی آمد کے بغیر گزرا کیونکہ شوہر کی بیماری کے باعث ان کا نکلنا محال تھا ! بعد میں جب ہم ان سے ملنے گئے تو انہوں نے جس شکایتی نظر سے ہمیں دیکھا وہ کہہ رہی تھی میں نہ آسکی تو تم لوگ تو آسکتے تھے  ! بولتی تو وہ ویسے بھی کم تھیں اب تو بالکل چپ لگ گئی تھی ! جنوری 2017ء میں ظفر بھائی انتقال کرگئے ۔ باجی عدت میں تھیں ۔ ہم ان سے ملاقات کو جاتے رہے ! رمضان سے ایک دن پہلے ان کی عدت ختم ہوئی ۔ ہم سب بھائی بہنوں کا اصرار تھا کہ وہ رمضان ہمارے ساتھ گزاریں اور ان کی بھی خواہش یہ ہی تھی مگر ان کو پنشن کے مسائل حل کروانے تھے اس کے علاوہ ان کی آنکھوں کے آپریشن اور آلہ سماعت کی خریداری بیچ میں حائل تھی لہذا بات ٹل گئی ۔
عید 2017ء میں وہ حسب معمول بیٹے کے ساتھ  آپہنچیں ۔  یہاں قیام کے لحاظ سے سامان بھی لائی تھیں ۔ خاندان بھر کے بچے بھی چھٹیوں کے باعث یکجا تھے ۔ ان سب کے لیے بہت خوشگوار موقع تھا ! لیکن انہیں بالکل مزہ نہ آیا کیونکہ نہ وہ لوڈو کے گیم کر رہی تھیں ،نہ بچوں کے ساتھ کہانیاں پڑھ رہی تھیں ۔فضہ نے ان کو مہندی لگانے کی کوشش کی تو انہوں نے جوا ب دیا اب میرے لیے مہندی لگا نا منع ہوگیا ہے ۔اوہ ! ہمیں ان کی اداسی سمجھ آئی ! محض بیماری نہیں  بلکہ  باجی نے بیوگی کی   ردا اوڑھ لی ہے  وہ بالکل بجھ کر رہ گئی تھیں! خیر ان کی کچھ تصاویرجب وہ یوسف کے                 ساتھ کھیل رہی تھیں ایک یادگار کے طور پر کیمرے میں محفوظ ہوگئے ۔وہ ایک ہفتہ ہمارے ساتھ رہیں ۔
پھر ان کی بیماری کی اطلاع پہنچی تو ہم سب عیادت کوگئے ۔ انیس بیس چلتی رہی ! رمضان سے دو دن پہلےملاقات کو گئے تو خاصی نڈھال تھیں ۔دل ان کو دیکھ کر بہت  پریشان ہوا ۔آخری عشرے میں جہاں عید کی تیاریوں کا اہتمام ہوتا ہے ۔ عید کے دونوں دنوں  کا مینو طے کرتے ہیں ۔ ان کی آمد کے حوالے سے تھوڑی تشویش تھی ۔ اور ستائیسویں روزے کو دل بلاوجہ رونے کو چاہ رہا تھا  جسے میں رمضان کا اختتام سمجھ رہی تھی ا ور عید کی تیاریوں کی طرف سوچوں کا رخ موڑ دیا ۔  غسل کرتے وقت میں نے سوچا کہ ہم ان سے ملنے عید پر چلے جائیں گے ۔اتنے میں فون کی گھنٹی بجی  یوسف کافون تھا ۔ مہرو خالہ کا انتقال ہوگیا ہے ! اتنی جلدی  اور اتنی آسانی سے سب کچھ ہوگیا کہ یقین نہیں آتا ۔۔! اور آپ مہرو باجی اس دنیا سے چلی گئیں ۔!  اور پھر دنیا بھر میں  ان کے چاہنے والے ایک تار میں منسلک ہوگئے ! اٹلی، بر طانیہ ، امریکہ ، کینیڈا اور آئر لینڈ سب جگہ سوگواری چھا گئی ۔
 عید کا دوسرا دن ! بار بار گیٹ پر نظر کہ آپ آئیں گی اور ٹھنڈا پانی مانگیں گی ۔۔۔  مگر آپ کو تو اپنے پیاروں کے ساتھ جنت میں عید منانی  تھی نا  ! ان شاء اللہ !   مگر مجھے تو اپنی عیدی کا نقصان بہت کھل رہا ہے اب کون دے گا ؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فر حت طاہر ٭



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں