ہفتہ، 16 ستمبر، 2017

زندگی کا دوسرا رمضان


دوسرارمضان مبارک!

اس سال رمضان کی آمد سے  پہلےہی خبر گرم تھی کہ گرم ترین روزے ہوں گے!  کسی کی بات دل کو اچھی لگی کہ33سال بعد   بڑے اجر والے روزے  آرہے ہیں ! بات تو درست ہے کہ مشقت میں اجر ہے ۔ ہر وہ فرد جو پچاس کے پیٹھے میں ہواس بات کا گواہ ہے کہ اس کے بچپن یا نوعمری میں بھی ایسے پر مشققت روزے آچکے ہیں یعنی 1983ء  اور1984ء میں  مزید یہ کہ اب ایسے روزے 2050 ء میں آئیں گے ! یعنی  ہم اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نےاپنی زندگی میں دو دفعہ بقائمی ہوش وحواس  اجر سے بھرپور روزے سمیٹے ہیں ۔ ایک ابتدا ئے بہار میں تو دوسرا عمر کے دور خزاں میں ! ہماری نسل کے لیے  ایک قابل فخر بات ہے!!! ۔
33سال پہلے کا رمضان   جوکئی لحاظ سے ہمارے لیےذاتی اہمیت رکھتا ہے ۔یہ وہ رمضان جب  امی ہمارےدو چھوٹے بھائیوں کے ہمراہ نائیجیریا  گئی ہوئی تھیں جہان اباجان بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ گرمی کے رمضان ، امتحان اور گھریلو ذمہ داریاں ! سر منڈاتے ہی اولے پڑنے والا معاملہ تھا  جب زندگی بدلی ہوئی نظر آئی ۔ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے التفات کی وجہ سے ایک دو دن تو احساس نہیں ہوا مگرپھر  تو روزے کی سختی سے زیادہ حالات پر رونا آیا !  دو عدد برادران جن کا رویہ ہمارے ساتھ میں نہ مانوں والا تھا ،ایک بہن امی اباکی لاڈلی گڑیا جس پر ٹچ می ناٹ کا فقرہ صادق آتا ہے کے ساتھ گزارا کرنا ۔دونوں گروپ میں کاہلی اپنے عروج پر ! سحری تو سحری افطار میں بھی نیند سے اٹھا نا پڑتا ۔یعنی جانا ان کو کوچنگ یا کام سےہے اور نیند ہماری خراب ہو!۔۔۔کچھ عجیب و غریب سے حالات تھے ہماری کڑواہٹ آپ محسوس کر سکتے ہیں !
رمضان میں افطاری اور سحری کا معیار اور مقدار ایک اہم معاملہ ہوتا ہے جس پر ہمارے بھائی کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہ تھے ۔امی بے چاری اسٹور میں بہت سامان رکھ کر گئی تھیں ۔فرج میں بھی جس حد تک ممکن تھا کھانے پینے کی اشیاء بھری ہوئی تھیں مگر پھر بھی روز کے کام تو روز کرنے ہی ہوتے تھے۔ جس میں چنوں کی چاٹ ،پکوڑے اور شربت لازمی سے آئیٹم تھے ۔دو جگ شربت ، تربوز ، درجنوں  گلاس  پانی  اور پکوڑوں کے ڈھیر سے انصاف کرنے کے بعد بمشکل نماز ادا کرکے ہم سب صحن میں پڑی پلنگوں پر گر جاتے ، بھائی کے اگر دوست وغیرہ آجاتے تو وہ لان میں محفل جمالیتے ۔باقی گھر تو تنور بنا ہوا ہوتا جس میں خوب چھڑکاؤ کر کے گزارہ کرتے۔ حد یہ کہ سحری اور افطاری بھی صحن یا لان میں ہوتی ۔کھانے کے بجائے آم کھا لیے یا بڑے بھائی کسی کسی دن آئسکریم کا اسکوپ لے آتے یا پھر کولڈ ڈرنک کا کریٹ  ( اس وقت لٹر بوتل کا رواج نہ تھا)تو ہم سب مزے کرتے۔آپ یہ مت سمجھیں کہ راوی عیش ہی عیش  لکھ رہا تھا کہ امی ابا اور دو بلونگڑوں کے نہ ہونے کے باعث ہم بڑی آزادی اور کروفر سے رہ رہے تھے ۔آہ وہ زمانہ جب محلے والے،رشتہ دار اور دوست سب کے سب  ہم پر کڑی نظریں رکھے ہوئے تھے۔ خصوصا برابر میں  رہنے والی باجیاں تو گویا ہماری چیک پوسٹ تھیں ۔کون آیا ؟ کتنی دیر قیام رہا ؟ کیا تواضع ہوئی ؟ مقصد آمد وغیرہ وغیرہ ۔۔ہماری ہر سرگرمی ان کی نظر میں تھی ۔ایک تو وجہ ہمارے گیٹ ملے ہوئے تھے ۔لان  کی چھوٹی چھوٹی دیواروں سے ویسے بھی کوئی پردہ ممکن نہیں تھا اور پھر یہ کہ ان کا گھر ہمارا ٹیلی فون بوتھ بنا ہوا تھا (یوں تو  گھر میں ٹیلی فون کی سہولت دستیاب تھی مگر ہمارے فو ن میں کوئی مسئلہ تھا جس کے حل کےلیے  ابا جان کی موجودگی  ضروری تھی )  ہماری اس مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ  ہماری لاگ بک تیار رکھتیں ۔اب بھلا ایسے میں کوئی کیا آزادی کا سانس لے سکتا ہے ؟ اس وقت رمضان کا اتنا تقدس تھا کہ بھولے سے بھی ٹی وی کھولنے کا خیال نہ آتا  ۔یہ اور بات ہے کہ ٹی وی کی نشریات بھی بہت پاکیزہ  اور پرنور ہوا کرتی تھیں مگر پھر بھی ٹی وی شاید خبروں کے لیے کھلتا ورنہ بند ہی رہتا حالانکہ والدین کی عدم موجودگی کے باعث کوئی پابندی نہ تھی ۔
اس مضمون کو پڑھنے والے نوجوان قارئین کے لیے یہ تصور سوہان روح ہے کہ پھر روزہ کیسے گزرتاہوگا ؟ تو عرض  یہ ہے کہ بہت عمدہ ! آپس میں روابط اور گپ شپ کے باعث کبھی بوریت کا سوال ہی پیدا نہ ہوا ۔(یہ تو آج کی نسل کا مسئلہ ہے!  تفریح  کے معنی یکسر تبدیل ہوچکے ہیں ! )   ہماری دوسراہٹ کے لیے بھائی کے عراقی دوست اپنی کزن سعودۃ  کو ہمارے گھر لے آتے۔وہ کلیہ ادویات کی طالبہ تھی ۔بے حد شوخ ،باتونی اور کھلنڈری ! وہ اپنے استادوں کی نقلیں اتارتی تو ہمیں اچھا نہ لگتا ، دوسرے عرب اہل زبان ہونے کے باعث وہ ہمارے عربی تلفظ کی بھی دھجیاں اڑاتی ۔اس کی بہن اکرام جو میڈیکل کی طالبہ تھی نسبتا سنجیدہ ، معصوم ،گڑیا جیسی ! اردو بھی بہتر سمجھ لیتی تھی ! سعودۃ کی نظرہمارے بالوں پر رہتی ( بقول ہمارے والدین  ہماری غذا جسم کے بجائے بالوں کوصحت  بخشتی تھی !) ۔ایک دن وہ کسی شمپو کی لٹر بوتل لے کر آئی جس پر عربی عبارت تھی ۔ہم جو اس وقت تک  شمپو تبرکا ً  ہی استعمال کرتے تھے خوشی سے کھل اٹھے کہ اس کو ہمارے  بالوں کی کتنی فکر ہے !  اور جب اس سے سر دھویا تو بہت ہی کالا ساپانی نکلا ۔بال بہت سلکی ہوگئے ۔یہ اور بات ہے کہ آہستہ آہستہ ہمارے بالوں کی چمک ختم ہوتی گئی ۔۔نہ معلوم اس نے ہمارے ساتھ دوستی کی یا دشمنی ؟
وہ رمضان جس کا ذکر خیر جاری ہے اس لحاظ سے بھی  یاد گار ہے کہ اسی رمضان  میں پہلی دفعہ ہمیں قرآن کا ترجمہ پڑھنے کی سعادت ملی۔عبادت سے ہمارے شغف میں اضافہ ہوا۔ کچھ  نیک دل سہیلیوں کی صحبت اور دوسرے طیبہ شفائی کا انداز ۔دل بدلنے لگا ۔ بدنی عبادتوں کے معیار میں بہتری آئی اور نمازوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ۔ عشاء کی 17 اور تراویح کی 20 رکعتیں ! ہم نہ تھکتے مگر دیکھنے والے ہماری طرف سے فکر مند ہوتے ۔امتحانات کا بھی زمانہ تھا ۔ دل بھر کے نفل مان لیتے ! ہر پیپر کی 50 رکعتیں تو بنتی تھیں اور بائیوفزکس  کے مشکل مضامین کے لیےتو 100 رکعتیں بھی  کم تھیں ! وہ تو اللہ بھلا کرے کشفی آنٹی ( بلقیس کشفی ) کا  جنہوں نے بہت پیار سے بتایا کہ بیٹا اللہ تو دو رکعتوں پر بھی راضی ہو جاتا ہے اگر خلوص نیت سے پڑھا جائے ! بس ان کی بات ہم نے پلے سے باندھ لی ! کہیں تو محض سجدہ شکر سے ہی کام چلا لیتے ہیں !( اطمینان ہے کہ اسٹاک میں کچھ نوافل تو موجود ہیں جو اب عمر کے اس حصے میں حاصل کرنا محال ہیں کہ اب تو فرض نمازوں کا بھی وہ معیار نہیں رہا ! )
یہ وہی رمضان ہے جس میں ہم نے پہلی دفعہ کڑھی پکائی ! سوچا پکوڑے تو بنا ہی لیتے ہیں تھوڑی اور محنت کر لیتے ہیں           ! گوگل کا زمانہ نہیں تھا کہ ترکیب سرچ کر لیتے ۔پڑوس کی چچی سے سے پوچھا اور کچھ امی کو بناتے دیکھا تھا ۔یاد کرکے بناہی لی ۔ شکل اچھی تھی چچی نے تعریف کی توہم خوشی سے پھول اٹھے   ۔ چند دن بعد انہوں نے بھی کڑھی بنائی اور ہمیں بھیجی ۔جس کو کھا کر ہم نے سوچا کڑھی تو یہ ہے تو جو ہم نے بنائی تھی وہ کیا تھی ؟صرف عمدہ سا بگھار جو بیسن کے ملغوبے پر ڈالا گیا  تھا ۔چچی کی عظمت کے قائل ہوگئے ! ایک ماہر فن کبھی حوصلہ شکنی نہیں کرتا ۔ ہمارے اندر جتنی بھی مہارتیں ہیں اس کا کریڈٹ چچی کو ہی جاتا ہے ۔ جن سے ہم نے باضابطہ زانوئے تلمذ تو طے کیا ہی ،چلتے پھرتےبھی بہت کچھ سیکھا اور اللہ سلامت رکھے اب بھی کوئی بات سمجھ نہ آئے تو ان کا مشورہ کام آتا ہے !
۔ پھر اسی رمضان میں ہمیں پردے کی توفیق ملی۔ یہ ہماری زندگی کا ایک اہم موڑ تھا ۔ مثال بننا اتناسہل تو نہیں ! بر قع کےکپڑے کا حصول اور سلائی امی کے بغیر مخلص ساتھیوں  کی مدد سے آسان ہوا۔ لیکن مشکل ترین مر حلہ اس کو پہن کر ہم جماعتوں ، کزنز اور دیگر محلہ دار( جن کے ساتھ عمر بےتکلفی میں گزری ہو ) سامنا کرنا تھا ،بہر حال  یہ مہم تو سرکرنی ہی تھی! سب سے پہلے ٹاکرا  کشفی انکل   مر حوم سے ہوا ۔۔
"کیا ہم سے بھی پردہ ہو گا ؟  چمک کر بولے   " جی ہاں ! جی نہیں ! "      ہم نے مری ہوئی آواز میں جواب دیا ۔یہاں پر پھر آنٹی نے ہم دونوں کے درمیان مک مکا کروایا ! یقینا انکل سے کہا ہوگا بچی شرعی پردہ کرنا چاہ رہی ہے تو آپ کو تو خوش ہونا چاہیے اور ہماری کاؤنسلنگ بھی اس طرح کی کہ ہر مخالفت کرنے والا دشمن نہیں ہوتا اور حزب الشیطان تو بالکل نہیں ہوتا۔      ۔۔! ( جیسا کہ ہم اس وقت قرآن کی اصطلاحات کو براہ راست استعمال کرنے لگے تھے )   ثابت ہوا کہ نرا علم خطر ناک ہے اگر اس کے ساتھ کوئی رہنمائ کر نے والا نہ ہو !  یوں ہمارے درمیان ادب ، احترام اور التفات کا جو تعلق قائم ہوا وہ بچگانہ بے تکلفی اور معصومیت و سادگی کا ہی ایک رخ تھا ۔جو افراد ان کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہوگا کہ وہ چھوٹوں سے کتنی اپنائیت رکھتے تھے۔۔!
عزیز قارئین ! ہم نے تو 33 سال پرانے رمضان کا حال بیان کرنا شروع کیا تھا مگر اس دور کے کردار ہمارے اس سفر میں شامل ہوتے جارہے ہیں اور بات طولانی ہو رہی ہے  !  ہمیں صفحات کی تنگی کا بھی خیال کرنا ہے اور وقت بھی مختصر ہے کہ اشاعت میں چند گھڑیا ں ہی رہ گئی ہیں ۔۔۔لہذا اپنی بات یہاں وقفہ کے ساتھ ختم کرتے ہیں ۔
 عید تک کیا رہا ؟ گھر کے جو افراد باہر تھے ان پر کیا بیتی ؟ اس کے اثرات ہم پر کیا پڑے ؟ واپسی اور اس کے بعد کے حالات بھی چند سطروں میں نہیں بیان کر سکتے لہذا اجازت  اگر موقع ملا تو پھر باقی باتیں ہوں گی ان شاء اللہ !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فر حت طاہر 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں