جمعہ، 1 جولائی، 2016

ہوم میکر


                                کس طرح ہاتھ آئے سوز و درد و داغ؟

 

 علامہ اقبال کا یہ مصرعہ سارہ اقبال کے نام!
ٹھہریں! یہ سارہ ہے کون؟
موبائیل کمپنی کے تازہ اشتہار میں کر کٹر بن کرکامیابی حاصل کرنے والی لڑکی جو اپنے ناراض والد کی آواز سن کر بھرے مجمع میں مائیک کے سامنے رو پڑتی ہے۔اس اشتہار کو دیکھ کر آج پورا پاکستان اشک بار ہے! عمومی افراد تو فلمی جذباتیت سے متاثرہ ہیں جبکہ بہت زیادہ اپنی اقدار اور روایات کی تباہی پرلرز رہے ہیں! یہ اشتہار خصوصی طور رمضان میں لانچ کیا گیا ہے!
ایک اشتہار ہی تو ہے یہ! آخر اتنا ہنگامہ کیوں؟  یہ موبائیل کمپنی تو اس سے کہیں زیادہ فحش اشتہار بنا چکی ہے۔ انڈین اداکارہ  ہونابھی کوئی نئی اورانوکھی بات نہیں! پھر کیا مسئلہ ہے؟ اس میں تو ایک مسلمان گھرانہ دکھا یا گیا ہے مذہبی اقدار و عبادات پر چلنے والا اور پھر کرکٹ جو ہم پاکستانیوں کی کمزوری! یہ ہی بات تو تشویشناک ہے!
 شاہنواز فاروقی صاحب نے برسوں پہلے یہ بات کہی تھی کہ اسکرین پر کسی یورپین کو دیکھ کر ہم تسلی دیتے ہیں کہ یہ تو ہمارا کلچر نہیں ہے۔پھر ہندوتہذیب کو دیکھتے ہیں توبھی مذہبی لحاظ سے مختلف محسوس کرتے ہیں۔لیکن جب مسلمان تہذیب میں کچھ دیکھتے ہیں تو اپنائیت سمجھتے ہوئے شرعی طور پرحلال اورجائز سمجھتے ہوئے نقل کرنے اور اپنانے میں عارنہیں سمجھتے اور یہ وہ خطرہ ہے جو مسلمان تہذیب کے لیے خود کشی  کے مترادف ہے۔بالکل یہ ہی بات ایک خاص غیر مسلم گروپ کے بارے میں کہی جاتی ہے کہ وہ اسلامیا صطلاحات استعمال کرنے کی وجہ سے زیادہ خطر ناک ہوتے ہیں۔
اشتہاری کمپنی کو داد دینی پڑ تی ہے نام کے انتخاب پر! سارہ جو بلا تفریق ہر مذہب میں بہت پیار سے رکھا جاتا ہے خواہ ہندو ہو یا مسلمانِ عیسائی ہو یا یہودی! ہر گھر، خاندان اور محلے میں ایک پیاری سارہ ضرور ہوتی ہے جو سب کی آنکھ کا تارہ ہو! مگر موبائیل کے اشتہار میں خصوصی طور پر اسے مسلمان دکھا یا گیا ہے۔ظاہر ہے ایک مسلمان معاشرہ ٹارگٹ ہے خصوصاً مسلمان خواتین اور گھر!
اس اشتہار میں وہ اپنے باپ کو ناراض کر کے ٹریننگ پر جارہی ہے! کیا حقیقت میں ایساہوتا ہے یا ہونا چاہیے؟ کرکٹ کا جنون اپنی جگہ مگر ایک مسلمان سارہ کا یہ شوق کچھ اس انداز کا ہو تا ہے کہ:
٭وہ باپ کی لاڈلی ہے، جب وہ کھیلنے جاتے ہیں تو اسٹیڈیم میں موجود ہوتی ہے،ابو کی کامیابی پر میڈیا کے سامنے پر اعتماد طریقے سے اظہار خوشی کرتی ہے بغیر اس کے کہ کوئی بات مذہب کے منافی ہو! شکست پر تبصرہ کرکے اپنا کھیل سے تعلق ظاہر کرتی ہے مگر اپنی نسوانیت کو داغدار کیے بغیر!
٭بھائی کرکٹ کوچنگ کے لیے روانہ ہوتا ہے تو وہ اس کا بیگ تیار کرتی ہے جو واپسی میں اسے تحائف اور مٹھائی سے بھرا ملتا ہے!
 ٭جب منگیتر کھیل کے میدان میں ہوتا ہے تو چپکے چپکے اس کی کامیا بی کی دعا کرتی ہے کہ سندیسے اس تک ہر صورت پہنچ جاتے ہیں!
٭اور جب وہ بیاہ کر اپنے شوہر کے پاس چلی جاتی ہے تو اس کی فتح کی دعا ہر سانس میں کرتی ہے خواہ اسٹیڈیم میں ہو یا گھر میں! وہ بھی اپنا میڈل اس کے گلے کا ہار بنا دیتا ہے!
٭اور جب  بیٹا کر کٹ کا بلا لے کر میدان میں اتر تا ہے تو وہ اس کے ہر رن پر کئی کئی نفلیں منت مان لیتی ہے کہ وہ بھی تو ماں کو ہر ہر لمحے کی روداد سنا تا ہے!
  یہ سارے روپ قدرتی اور فطری ہیں .....اورجب ان تمام کرداروں کے بجائے  وہ خود بلا لے کر میدا ن میں اتر تی ہے تو سب اتھل پتھل ہوجاتا ہے!اس کی غیر حاضری ہر جگہ ایک خلا ء پیدا کر دیتی ہے! دوسری طرف میدان میں اترنے سے پہلے پہلے سارہ کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟   اس کے لیے ملتان کی ایک کر کٹر حلیمہ کی مثال کافی ہے جو چند سال پہلے ماہ رمضان میں ہی خود کشی کر چکی ہے! وجہ کرکٹ عہدہ داران کی ناشائستگی!
اس اشتہار میں ایک خود مختار اور با اختیار عورت کی کر دار سازی سازی خود بخود نظر آ رہی ہے اور یہ ہے پچھلے ڈیڑھ دو عشروں کی سرمایہ کاری کا نتیجہ! جی ہاں! آزاد، اپنے فیصلے خود کرنے والی عورت،زندگی کے ہر پیشے میں نظر آنے والی عورت! اب ایسا ماڈل معاشرے میں بآسانی دستیاب ہے! بہت ہی مخصوص شعبوں میں جہاں لڑکے بھی کم تعداد میں پہنچتے ہیں لڑکیوں کا جوق در جوق داخل ہونا کس بدلتے ہوئے سماجی رویے کا غماز ہے؟ اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں!
   دو ڈھائی عشرے پرانی بات ہے کہ یونیورسٹی میں طالبات کے درمیان ایک مبا حثہ تھا بعنوان:
                               عورت گھر اور باہر توازن سے کام کر سکتی ہے؟
 اس بات کی مخالفت / حمایت میں دھواں دھار دلائل دیے گئے۔دونوں طرف پلڑہ برابر تھا۔ججز کو فیصلہ کرنے میں دشواری پیش آ رہی تھی شاید! مگر اس پرایک نو دس سالہ بچی کے تبصرے نے (جو اپنی خالہ یا کسی کزن کے ساتھ آ ئی ہوئی تھی)اس مذاکرے کا رخ متعین کر دیا۔
       ”.....میں چاہتی ہوں کہ جب میں اسکول سے آؤں تو امی گھر پر ہوں ........!“
اس جملے نے واضح کر دیا کہ گھر کی تکمیل عورت کے وجود سے ہوتی ہے۔ یہ ایک جھلک تھی ہمارے اس وقت کے معاشرے کی جب خواتین  صرف تعلیمی یا طبی شعبے میں ہی نظر آ تی تھیں اور اس پر بھی بحث ہورہی تھی کہ اس کے اوقات کار ایسے نہ ہوں کہ گھر متائثر نہ ہو۔اور پھر تبدیلی کی فضا نے ہر طبقے اور ذہنی و معاشرتی سطح کی عورت کو گھر سے باہر دھکیل دیا۔ ائر ہوسٹس اور نر سز پر ہی اعتراضات ختم نہیں ہوئے تھے کہ بسوں اور کوچز میں بھی لڑکیاں میز بانی کرنے لگیں۔ پٹرول پمپوں، ویٹرز سے لے کر سیلز گرلز اور .........وغیرہ وغیرہ! ا ب زندگی کا کون سا شعبہ ہے جہاں خواتین موجود نہیں اور اس کا جواز؟ .عورت سب کچھ کر سکتی ہے!یہ ہے سب سے بڑا دھوکہ ...سراسر غچہ دے کر عورت کو بے حال کیا گیا ہے!جب مرد سب کچھ نہیں کر سکتا (نہ بچے پیدا کرسکتا ہے نہ پال سکتا ہے!) تو عورت پر یہ ظلم کیوں کہ اسے جیک آف آل بنا یا
 جائے! اس حوالے سے آج کی نوجوان لڑکیوں پر بڑا ترس آ تا ہے۔ نسوانیت کا تقاضہ کہ حسن کی حفاظت اور گھر کی سجاوٹ بناوٹ، رشتوں کی سمجھ بوجھ میں وقت گزارے دوسری طرف کیریر اور اس کے لوازمات اس بات پر اکساتے ہیں کہ لڑکوں سے آگے جاناہے تو ان کی طرح حلیہ، بال اوررکھ رکھاؤ اپنا نا ہے! اس چکر میں تیتر بٹیر قسم کی نسل تیار ہورہی ہے! ....
  اس اشتہار کا قابل اعتراض پہلو صرف عریا نی نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی نمونہ paradigmکو تبدیل کرنے کی بات ہے۔ کر کٹر کی وجہ سے کر کٹ میں دلچسپی لینے والی لڑکیاں خود بلا لے کر میدان میں آ جائیں تو گھروں کاکیاہوگا جہاں نسل انسانی تیار ہوتی ہے! وہ تو گھر کامر کزہ (نیوکلیس) ہے۔ اس کے گرد دائرے کو توڑ دیا جائے تو کتنی تباہی ہوتی ہے۔ یہ ہے اصل اضطراب کی وجہ! اس سامراجی ایجنڈے کا توڑ کیا اور کیسے کرنا ہے؟
کسی بھی خطرے کے حوالے سے تین قسم کے رویے سامنے آتے ہیں۔کچھ تو طوفان کی پیشگی آمد سے بچاؤ کی تد بیر کرتے ہیں، کچھ طوفان کو قریب آتے دیکھ کر ہنگامی اقدامات کرتے ہیں جبکہ ایک بڑی تعدا د طوفان گزر جانے کے بعد ہوشیار ہوتی ہے! اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں!
 ...........................................................................................................................................................
    فر حت طاہر