ہفتہ، 31 دسمبر، 2016

مشرق کے آنگن میں مغرب

 ا



   قصہ کچھ یوں ہے کہ ہم نے اپنے گھر کام کرنے والی لڑکی کو سلائی کا ہنر سکھانے کا ارادہ کیا(اسے ہماری بے وقوفی نہ سمجھیں کہ سلائی سیکھ کر وہ ہاتھ کہاں لگے گی! اس مفروضے کے بجائے ہماری دانش مندی کو داد دیں کہ گھر بیٹھے کپڑے سلواسکیں گے ...خیر جناب بچے کے کپڑے سے آغاز ہوا۔اس کے بعد سادے سوٹ کی باری آئی۔ پہلے نمبر پر شلوار کا خاکہ بناکر دیا۔ وہ ایسے چونکی جیسے کوئی متروکہ لفظ کہہ دیا ہو ہم نے!
  ” ...شلوار؟  یا پاجامہ..  ٹر ... ٹرو “ اس کی ٹر ٹر نے بتا دیاکہ وہ کیا کہنا چاہ رہی ہے۔جی ہاں ٹراؤزر!  اس کے اعتراض پر سوچ میں پڑ گئے کہ شلوار کیا ہے؟ یہ ہماری زندگی میں کب سے ہے؟ بہت بچپن میں بھی شلوار کے بغیر فراک ادھوری لگتی تھی ..پھر جمپر کے ساتھ بیل باٹم اور فلیپر بھی پہنا! کبھی کبھار ترکی یا میمنی شلوار بھی پہنی۔
پہلی دفعہ شلوار سینے کا اتفاق انٹر کی چھٹیوں میں ہوا جب ہم با قاعدہ سلائی سیکھ رہے تھے۔ ورنہ اس سے پہلے تو بس امی یا کسی بڑے کے کہنے پر سلائی جوڑ دیتے تھے ....اس موقع پر مشہور مصنفہ سلمٰی یاسمین نجمی کا مزیدار مضمون پڑھنے کو ملا جس میں انہوں نے اپنی شلوار کی سلائی کو موضوع گفتگو بنا یا تھا!  زبر دست ترکیب (articulation(ہوتی ہے کسی پزل کی طرح ٹکڑے جڑ تے چلے جاتے ہیں اور شلوار تیار!!ہاں تو ہم شلوار سینا سیکھ گئے۔اتنا مزہ آ یا کہ بتا یا نہیں جا سکتا!  خاص طور پر بیلٹ لگانا! خاصہ ہنر مندی کا کا م ہے جیسے حساب میں فارمولے لگاکر مطلوبہ جواب حاصل کر لیا جا ئے تو خوشی حاصل ہوتی ہے!
شلوار سینا اتنا بڑا فن ہے ہمیں تو اندازہ ہی نہیں ہوتا! وہ تو ہماری بھاوج جو مشرق وسطٰی سے تعلق رکھتی ہیں جب پاکستانی شلوار لے کر مقامی اعلٰی درزی کے پاس لے کر گئیں کہ ایسی بنا دو تو وہ اپنے تمام ہنر و فن کے باوجود اس کو ڈیزائن کرنے سے قاصر رہا اور یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ .....پاکستانی بہت نفیس اور اعلٰی ذہن رکھتے ہیں ....!تو عزیز بہنو! ہماری شلوار بہت بڑا شاہکارہے۔اس کی قدر کریں کہ اس کو سینا اور پہننا عمدہ ذوق کی نشانی ہے!  آئیے! اپنی شلوار کو رواج دے کر واپس لائیں!
یہاں پر ہماری بات مکمل ہوگئی مگر نہیں ابھی کہاں؟ بات دراصل یہ ہے کہ واپس لانے کا،مطلب یہ ہے کہ وہ گم ہوگئی ہے۔ یہ کب ہوا؟؟ متعین وقت تو نہیں بتا یا جا سکتا کیونکہ آہستہ آہستہ معدوم ہونے والی چیزوں کا ریکارڈ مرتب نہیں رکھا جا سکتا۔ہاں اتنا یاد ہے کہ تقریبا  آٹھ برس قبل اپنی والدہ کے طبی معائنے اور علاج کے لیے اسپتال بہت جانا پڑ رہا تھا۔ انتظار گاہ میں بیٹھے بیٹھے کچھ خواتین کو حد سے لمبی قمیض اورشلوار کی جگہ ایک تھیلا نما چیز پہنے دیکھا۔غرارہ کی کون سی شکل ہے؟ کچھ سمجھ نہ آیا!یہ نیا فیشن ہے یا یہ خاتون بیرون ملک سے در آمد ہوئی ہیں۔ اگلی بار جانا ہوا تو ڈاکٹرز کے علاوہ کئی وزیٹرز بھی اسی حلیے کا شکار نظر آئیں! اوہ تو یہ نیا فیشن ہے! سمجھ میں آیا تو خوشی ہوئی کہ سترپوشیکے لحاظ سے مناسب ہے اگر چہ کپڑے کا ضیاع نظرا ٓرہا ہے۔
          خیر اس کے بعد تو ہر ایک کو اپنے پرانے کپڑے آک ورڈ لگنے لگے اور سب نے اپنی وارڈروب تبدیل کرڈالی،جو نہ ہوسکے ان کے نیچے بیلیں لگا کر ممکنہ لمبائی حاصل کر لی گئی اور چوڑائی میں اضافہ کلیاں لگاکے پوری کر دی گئیں ....رفتہ رفتہ یہ صورت حال ہوگئی کہ پورے سوٹ میں صرف اوپر کا لبادہ تیار ہو سکتا ہے اورپھر تو شامیانہ ہی تیار ہونے لگا جس میں لگتا تھا پورا تھان ہی تھوپ لیا گیا ہے ...اور شاید یہ ہی وقت تھا جب شلوار پہننا اور نہ پہننا برابر ہوگیا لہذا شلوار غائب کر دی گئی..اور اس کی جگہ لیگنگز نے لے لی۔ جو یہ نہ پہن سکتی تھیں انہوں نے چوڑی دار پاجامہ سلوالیا۔یہاں تک کہ ہر عمر کی خاتون اپنی بساط بھر اسی حلیے میں آگئی۔ایک دن ہماری عزیزہ نے بتایا کہ ہماری میڈم (ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں) لیگنگز پہن کر آئیں تو سارے آفس والے انگشت بدنداں تھے اور ہمیں  اپنے بچپن کا واقعہ یاد آیا جب ہمارے والد نے گھر آکر تذکرہ کیا کہ ایک محتر مہ شاید غلطی سے باریک شلوار پہن کر یونیورسٹی آگئیں۔اور جب ان کی غلط فہمی دور کی گئی کہ غلطی نہیں بلکہ اب لان کی شلواریں آگئی ہیں تو انہوں نے ناپسندیدگی کااظہار کیا۔نتیجہ؟ ہماری امی نے مرتے دم تک لان کی شلوار نہ پہنی۔
بہر حال کئی موسم بدلے اور فیشن ایجاد کرنے والے بھی کچھ اکتا سے گئے تھے۔(فیشن ڈیزائنر کا ٹارگٹ ٹین ایجرز ہوتے ہیں مگر کیا ہو کہ جب وہ بیس سالہ بیٹی، چالیس سالہ ماں اور ساٹھ سالہ نانی کو ایک ہی سے حلیے میں دیکھیں تو فیشن تبدیل کر دیتے ہیں)چنانچہ قمیضیں نارمل ہوتے ہوتے ایکسٹرا شارٹ ہوگئیں جبکہ شلواروں کی جگہ ٹراؤزر نے لے لیں۔سینے میں نسبتا آسان ہونے کی وجہ سے بہت جلدی درزیوں نے اسے ہاٹ فیورٹ بنوادیا۔انواع و اقسام کے پاجامے بازار میں دستیاب ہوگئے۔  
  یہ 2006 ء کی بات ہے۔انگلش میڈیا کی مانیٹرنگ ہمارے ذمہ تھی۔ تو ایک مشہوربین الاقوامی فیشن ڈیزائنر سنبل کا انٹرویو پڑھنے کا موقع ملا۔ اس کا کہنا تھا کہ پاکستان  جیسے ملک میں یہ منظر آنے میں کچھ وقت لگے گا کہ خواتین اسکرٹ (یقینامنی اسکرٹ)پہنے اسٹاپ پر کھڑی ہوں! ان کی یہ حسرت یا خواہش محض دس سال کے اندر ہی پایہ تکمیل کو پہنچ گئی جب اسکن کلر کی ٹائٹ میں ملبوس خواتین اور لڑکیاں جگہ جگہ نظر آنے لگیں۔میرے خیال میں مستنصر حسین تارڑ کو کسی یورپی ملک کی منظر کشی کرنے کے لیے اسپین، اٹلی یا فرانس جانے کی ضرورت نہیں رہی گھر سے نکل کر بازار اور سڑک پر آئیں ہر طرف یہ ہی منظرہے جب  بس کے پائیدان پر لٹکی لڑکی کی قمیض کا دامن ذرا سی حرکت پر اوپر اٹھتا ہے اور لمبے لمبے چاکوں سے بڑی دور تک نظارہ ہوتا ہے۔ اپنی مشرقیت کا پر چار کرنے والی خواتین چوڑی دار پاجا مے کو اپنی نانی،دادی کی پہچان کہہ کر بڑے فخر سے اپناتی ہیں۔ وہ تو یہ لباس پہن کر ٹھاٹھ سے گھر میں بیٹھا کرتی تھیں آج کل کی بے چاریوں کی طرح یوں خوار نہ ہوتی تھیں اور پھر اس کے ساتھ لمبے گھیر دار پشوازاور جمپر ہوتے تھے، یہ ننھی منی کرتیاں نہیں!
بے پردہ گھومنے والی خواتین کی بات الگ ہے پردہ دار خواتین کے لیے تو اس کی بہت گنجائش ہے۔وہ تو گھروں میں یا خواتین کی محفل میں ہوتی ہیں۔ان کے پہننے میں کوئی حرج نہیں! یہ تھا موضوع جو کسی ایسے ہی ایک اجتماع میں زیر بحث آ یا۔ٹراؤزر پہننے والیوں نے اعتراض کرنے والیوں کو جواب دیا۔اس بات کو اتنا ایشو کیوں بنا یا جا رہا ہے؟ اسلام میں پاجا مہ کا ہی ذکر ہے۔ شلوار تو صرف ہمارے خطے میں ہی  پہنی جاتی ہے....ہم بھی اس دلیل کے قائل ہوگئے اور جب اپنی ہم عمر،ہم جثہ خواتین کو پہنے دیکھا تو ایک دو پاجامے بنا ڈالے۔سینا ضرور آسان ہے مگر استعمال نہیں خصوصا اٹھنا بیٹھنا مشکل! نماز پڑھتے ہوئے عجیب صورت حال! خود تو جو تکلیف ہو فیشن کے نام پر گوارا مگر  دیکھنے والوں پر کیا گزرتی ہے؟  بس یہ سوچ کر ہم نے ان کو تقسیم کردیا۔
کو ایجو کیشن کالج میں پڑھانے والی ایک لیکچرر نے کسی دعوت کے دوران نماز پڑھنے کے لیے جب اپنے ہائی ہیل اتار کر اپنے ٹراؤ زر کے بکل ڈھیلے کیے تو ہم اس کمرے سے ہٹ گئے۔خوامخواہ کی بد نگاہی کا کیا فائدہ؟ مگر کئی دفعہ دوران محفل نماز پڑھنے کا موقع ملا تو یقین کریں سجدہ سہو ضرور کرنا پڑا۔ظاہر ہے آپ کے سامنے جو منظر ہو تو کبھی سجدے بھول گئے تو کبھی تشہد! توبہ توبہ!اپنی گھیردا ر شلوار کی کیا بات ہے! آرام دہ اور دیدہ زیب!اپنی تہذیب،اپنا پہناوا! ہماری ایک آنٹی انڈین شلواروں کو دیکھ کر بہت منہ بناتی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عورتیں کبھی ایسی پتلی /چست شلواریں استعمال نہیں کر سکتیں یہ تو فاقہ زدہ ہندوؤں کا پہناوا ہے۔معلوم نہیں اب ان کا کیا رد عمل ہے؟
پیاری بہنو!
ہماری شلوارہماری اقدار!یہ نہ سمجھیں کہ ہم یکساں الفاظ کی گردان کروا رہے ہیں جو شوشوں، نقطوں اور الفاظ کی بناوٹ سے تبدیل ہو جاتے ہیں بلکہ یہ دراصل اپنی گم گشتہ شلوار کا نوحہ ہے جسے ہم نے فی زمانہ مستعمل لفظ اقدار سے جوڑ دیا ہے! کہنے والے کہیں گے کہ کیا سارے مسئلے ختم ہوگئے ہیں جو شلوار،پاجامے کی بحث چھیڑ دی گئی ہے۔یہ مضمون پچھلے دوسال سے ہمارے کمپیوٹر میں اٹکاہوا تھا اور اسی اعتراض کا سوچ کر بھیجا نہیں جا سکا تھا مگر ہمارا لباس،ہمارا طرز معاشرت اتنا معمولی نہیں کہ اس سے یوں صرف نظر کیا جائے۔ اور پھر لباس کی تبدیلی کا یہ سفر کیا روکنے سے رکے گا؟ اس حوالے سے کچھ جینز کا ذکر بھی ہوجائے....مغرب کا یہ تحفہ وہاں بھی کچھ ہی عرصے پہلے ایجاد ہوا ہے ...اس زمانے میں وہاں کی مائیں اپنی لڑکیوں کو جینز پہن کر باہر نہ نکلنے کی ہدایت کرتی تھیں اور اور اب کہتی ہیں  ...کچھ تو پہن لیا کرو باہر جاتے وقت...! کیا ہم بھی اس ابلیسی دوڑ میں شامل ہیں؟کیا واقعی  بقول سلیم احمد    ”مشرق مغرب سے ہار گیا ہے؟؟.....“
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ٌ     فر حت طاہر


 
          



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں