ہفتہ، 31 دسمبر، 2016

بچے ہمارے عہد کے






          جگنو کو دن میں پرکھنے کی ضد کریں
           بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے

مرحومہ پروین شاکر نے یہ شعر نہ جانے کس عمر کے بچوں کے لیے کہا تھا مگر یہ بات طے ہے کہ یہ بچے پچھلی صدی کے تھے کیونکہ آج کے بچے اس قسم کی کوئی نا معقول ضد یا بحث نہیں کرتے وہ تو صرف آپ سے انٹر نیٹ کا پاس ورڈ پوچھتے ہیں اور مطلوبہ معلومات خود حا صل کرلیتے ہیں۔پچھلی نسل کے پاس لے دے کے ایک لغت ہوتی تھی جس سے حتی المقدور مستفید ہوتے تھے۔ایک دفعہ کامکس پڑھتے ہوئے یوم ویلنٹائن کا ذکر آیا تو ہماری سوئی اٹک سی گئی۔پہلے تو اپنے سے بڑوں سے پوچھا۔انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کیا کرتے بے چارے!   آ ج کا دور تھوڑی تھا کہ پیدائشی بچے سے لے کر قبر میں پاؤں لٹکائے بزرگ تک اس لفظ کی جزئیات سے واقف ہوں خیر ہم نے لغت کی مدد سے معنی تو معلوم کر لیے تھے مگر سچ پوچھیں تو اس کی تفہیم بیان کرنے سے ہنوز قاصر ہیں کہ شرم سے زبان گنگ ہوجاتی ہے!  اب آپ یہ مت سمجھئے گا کہ ہم نئی اور پرانی نسل کا کوئی موازنہ پیش کر رہے ہیں ...بس کچھ باتیں ہیں جو سپرد قلم کرنا چاہ رہے ہیں! اس سے پہلے ایک اور نسل سامنے آجائے اور ہم مزید قدیم ہوجائیں۔

آج کا دور چائلڈ سنٹرڈ (بچوں کے گرد)ہے۔اس حوالے سے بچوں کی نفسیات کے ماہرین کھمبی کی طرح دستیاب ہیں۔حالانکہ اس میں ڈگری کا کیا کمال؟ جس طرح ہر فرد آپ بیتی لکھ سکتا ہے کہ کچھ نہ کچھ اس نے زندگی گزاری ہی ہوتی ہے اور اس مفروضے کے عین مطا بق ہر فرد بچپن گزار چکا ہے تو اس کی بابت اپنے تجربے بیان کر سکتا ہے اور اس کی روشنی میں بچوں سے معاملہ کرسکتا ہے۔ بہر حال سارے مفکرین کا کہنا ہے کہ بچہ ہر حال میں درست ہے یعنی سارا قصور اسے برتنے والوں کا ہے!جو جگ کی رائے وہ ہماری مگر کیا ہو کہ آج کے دور میں ایسے بھی لوگ ہیں جن کا کہنا ہے کہ بچے کی کوئی عزت وززت(عزت نفس) نہیں ہوتی جہاں بد تمیزی کرے وہیں ٹھونک دیں! بڑوں خصوصا والدین کو سو فی صد حق حاصل ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ مشہور دانشور اشفاق احمد کی بھی یہ ہی رائے ہے!
ارے آپ نے وہ واقعہ نہیں سنا؟ ایک دفعہ اشفاق صاحب  اٹلی میں کسی اداکارہ /گلوکارہ کے گھرمدعو تھے جو بچے کو کسی بھی حالت میں نہ مارنے کے فلسفے پر یقین رکھتی تھی۔ چائے کی میز پر وہ اپنے بچے کے ساتھ موجود تھی اور اس کی ہر بد تمیزی کو ہنس ہنس کر نظر انداز کرتے ہوئے اس سے بڑے میٹھے لہجے میں مخاطب تھی۔تھوڑی دیر میں کسی کا فون سننے  وہ کمرے سے باہر چلی گئی۔بچے نے اکیلے پاکر اشفاق احمد سے مہابد تمیزی شروع کردی۔ان کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔انہوں نے اسے تھپڑ سے نوازا اور کچھ ناگفتنی سنائی۔ بچہ سہم کر مؤ دب بیٹھ گیا۔ ماں پلٹ کر آئی تو اشفاق صاحب سے اپنے طریقہ پرورش پر داد چاہی کہ دیکھیں جناب میری حکمت عملی کتنی کامیاب ہے؟ور وہ دل میں بہت محظوظ ہوئے۔ ہر ایک کے لیے اپنی رائے معتبر ہوتی ہے لہذا وہ اس کا جواز ڈھونڈہی لیتا ہے۔
ہماری ایک دوست نے یہ واقعہ سناکراس کی تصدیق بھی فرمائی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی چوتھی جماعت میں زیر تعلیم بچی کوحساب کے پہاڑے یاد کروارہی تھیں جو وہ کسی طرح نہ کررہی تھی۔اس کا جواز تھا کہ میں فارمولے کے تحت ضرب تقسیم کے سوال حل کرلوں گی یاد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس بحث کا اختتام ہماری دوست نے اپنے مادرانہ حقوق استعمال کرتے ہوئے دو ہتڑ لگا کر کیا۔ نتیجہ؟ سارے پہاڑے فر فر یاد ہوگئے۔ اب آپ یہ نہ سمجھیں کہ ہماری دوست کا یہ ظالمانہ قدم ان کی جہالت کی نشانی ہے! جی نہیں! وہ ایک بہت معیاری اسکول کی پرنسپل ہیں۔
چوتھی جماعت کے ہی ایک کردار سے ملاقات کرتے ہیں! یہ ہمارے بھانجے ہیں۔ جمعہ کے دن اسکول سے توہنسی خوشی گھر پہنچے مگر تھوڑی دیر میں بسورتے ہوئے نظر آئے۔ کیا معاملہ ہے؟ تحقیق پر معلوم ہوا کہ ان کا  ’عمرو کا بھوت‘  غائب ہے۔! گھبرائیں نہیں یہ کوئی سچ مچ کا بھوت نہیں ہے بلکہ کہانی کا نام ہے جو وہ اسکول جاتے ہوئے کہیں حفاظت سے رکھ گئے تھے کہ واپس آکرپڑھوں گا اور اب غائب ہے۔یقینا ان کی بڑی آپی کا ہاتھ ہوگا جو انہوں نے اسے مخرب الاخلاق جان کر ان کی پہنچ سے دور کر دیا ہوگا۔ہمارے سامنے مقدمہ آیا تو کچھ یاد کرکے ہم کھلکھلا کرہنس پڑے۔ برسوں پرانی بات ہے جب ہمارے چھوٹے بھائی کے ساتھ بھی یہ معاملہ پیش آیا۔وہ اسکول سے تو نہیں آئے (کیونکہ ان دنوں جمعہ کی چھٹی ہوا کرتی تھی) مگر امی جان نے ان کو نہلا دھلا کر جمعہ کے لیے تیار کیا اور وہ صاف ستھرے بستر میں لیٹ کر’عمرو اور اٹکی شہزادی‘  پڑھنے لگے۔ہم ان دنوں کچھ کچھ اسلامی لٹریچر کی طرف مائل ہوچلے تھے یہ دیکھ کر سخت برانگیختہ ہوئے اور ان کے ہاتھ سے اس کثیف کتاب (بارش میں بھیگنے کی وجہ سے سخت تعفن زدہ ہوگئی تھی)کو چھین کر ردی کی ٹوکری میں رکھ دیا۔بھائی اس ناگہانی پر گھبرا اٹھے مگر کچھ کہے بغیر خاموشی سے کتاب واپس لاکرسابقہ پوزیشن میں دراز ہوکر سلسلہ وہیں سے شروع کردیا جہاں سے منقطع ہوا تھا۔ ہم ہاتھ دھو کر کمرے میں آئے اوریہ منظر دیکھا تو آگ بگولہ ہوگئے اور آؤ دیکھا نہ تاؤ،ہاتھ پر لگی خوشبودار کریم کی پرواہ کیے بغیر اس کتاب کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔
طاقت استعمال کرنے کانتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلتا (یہ ہمیں اسی وقت اندازہ ہوا تھا) ہمیشہ ہنگامے پھوٹ پڑتے ہیں اور یہاں بھائی کا  احتجاجی رونا دھونا، ہماری شیلف کی طرف بری نیت سے بڑھنا،امی کی مداخلت وغیرہ وغیرہ اورجناب! معاملہ رفع دفع یوں ہوا کہ بڑے بھائی نے شام کے وقت ان کو ابن انشاء کے دو سفر نامے جاکر دلوائے.....تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے!برسوں بعد وہی واقعہ مختلف کرداروں کے ساتھ پیش آتے دیکھا توبر وقت اس کو بیان کرکے ہم نے ممکنہ نتائج سے اپنی بھانجی کوآگاہ کیا۔یقین کریں ہماری بات نے اثر کیا جب تھوڑی دیر میں  ’عمرو کا بھوت‘  کہیں سے نمودار ہوگیا اوریوں برسوں پرانے واقعے کا انجام دہرایا نہ جا سکا....آپ اس واقعے سے اپنے مطلب کے کئی مفروضے نکال سکتے ہیں ...  مثلا ہر دور کے بچے الف لیلیٰ قسم کی کہانی پسند کرتے ہیں، ہر دور میں چھوٹے بہن بھائی اپنے بڑوں کی جارحیت کا شکار ہوتے ہیں۔ بہن بھائیوں کے جھگڑے میں بھگتان ہمیشہ بڑے بھائی کو ہی ادا کرنا پڑ تا ہے ... وغیرہ وغیرہ! اپنے نفع و نقصان کی فکر مندی سب کو ہوتی ہے یعنی خطرات و خدشات کا علم ہوجانے پر کسی انتہائی اقدام سے رک جاتے ہیں۔
علم کی بات ہو تو حضرت علی ؓ کا نام یاد آجا تا ہے۔ بچوں کی تر بیت کے بارے میں ان کا مشہور مقولہ بہت زیادہ گردش میں ہے۔ جی ہاں! بچے کی عمر کے ادوار کے لحاظ سے کچھ یوں ہے کہ پہلے سات سال بچے سے کھیلو، اگلے سات سال ادب سکھاؤ اور پھر سات سال دوستی کرو۔ کچھ نا عاقبت اندیش والدین یا سر پرست اس ترتیب کو گڈ مڈ کردیتے ہیں۔نتیجہ یہ کہ سر پکڑے ماہرین سے مشورہ طلب کرتے نظر آتے ہیں۔ چونکہ ایسے والدین کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے لہذاطلب اور ترسیل(ڈیمانڈ اور سپلائی) کے فارمولے کے تحت ایسے ماہرین کا تناسب بھی بڑھ رہا ہے۔  یہ ہی بات ہے جو ہم نے آغاز میں کہی ہے۔
چاہے آپ نے ایک بھی بچہ کی پرورش نہ کی ہو مگر پھر بھی اپنے ارد گرد کے بچوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بچے کے بگڑنے کا تعلق محض زمانے یا میڈیا /سوشل میڈیا سے نہیں ہوتا بلکہ اس میں کہیں نہ کہیں عمر کے اس دور کا ہاتھ ہوتا ہے جس میں وہ ہوتے ہیں۔جب چھوٹے ہوں تودوڑ دوڑ کر کام کر رہے ہوتے ہیں، ہر اس کام میں لپکتے ہیں جس میں ان کے لیے خطرہ ہو اور جب  اس کام کو باآسانی کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو حیران ہوکر پوچھتے ہیں اچھا یہ کیسے ہوگا؟  مثلا ہمارے گھر کے بچے چھٹپن میں کھانا پکانے میں بہت لپکتے تھے۔روزانہ کی بنیاد پر کیک،سنڈوچز، ڈونٹس یا پھر چائینیز کی سر گرمی ہوتی جس میں انہوں نے کیا کرناہوتا بڑوں کو ہی تھکنا ہوتا تھا اور بجٹ الگ متا ثر ہوتا۔ مگر بچوں کے سیکھنے اور ان کو مصروف رکھنے کے لیے برداشت کیا جا تا۔ مزے کی بات کہ لڑکے بھی روتے کہ ان سے تو کچھ کام ہی نہیں لیا جا رہا۔ان سے سبزیوں کی کٹنگ یا کیک کی سجاوٹ کا کام مجبوراً لینا پڑتا جس میں نقصان اور وقت کی بربادی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔یہ وقت گزرا اور بچے جب اس قابل ہوگئے کہ یہ کام خود کرسکیں تو بیکریوں اور ریسٹورنٹ کی معلومات جمع کرتے نظر آتے ہیں۔اور کبھی کوئی چیز  تیار کرنے میں غلطی سے ان کوشامل کرلیں تو حیرت سے پوچھتے ہیں ...اچھا! یہ گھر میں بھی بنتے ہیں؟
باتیں اور واقعات تو اور بھی بہت ہیں مگرمضمون میں الفاظ کی حد ختم ہوگئی ہے لہذا یہیں بات مختصر کردیتے ہیں۔بس یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ بچوں کو ٹھوکنے اور ٹوکنے کا فیصلہ حالات و واقعات اور ان کے پس منظر میں کیا جا ئے کہ محفوظ راستہ یہ ہی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

         فر حت طاہر  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں