ہفتہ، 3 دسمبر، 2016

تخلیقی صلاحیت بمقابلہ سماجی روابط

  
 

 فروری 2014 ء میں مارک زبرگر کے واٹس اپ کو اپنا نے کے نتیجے میں روابط کا ایک حیران کن سلسلہ قائم ہوگیا۔ اس سے پہلے یہ ایک بے رونق اور خاموش میڈیم تھا مگر اس میں اب اتنی ایپلی کیشن ڈال دی گئیں کہ ا س نے تعلقات اور تجارت میں تہلکہ مچاکر اس کے حجم میں بیش بہا اضافہ کردیا۔روابط کا نا قابل یقین دائرہ وجود میں آگیا ہے جس کی نہ کوئی حدود ہیں اور نہ کوئی قوانین! س کے بعد اسمارٹ فونز کی مارکٹنگ میں ہوش ربااضافہ دیکھنے کو ملا اور نت نئے ڈیزائن مارکٹ میں چھا گئے۔
2011ء میں جب بھائی نے مجھے اسمارٹ فون باہر سے تحفے میں لاکر دیا تو میں اس کے استعمال کے بارے میں بڑی مایوس تھی کہ میرے دو ڈھائی سوسے زائد روابط میں سے کسی کے پاس نہ تھا۔ اور اب یہ حال ہے کہ پلمبر نل کا ڈیزائن واٹس اپ کرتا ہے کہ اس میں سے منتخب کرلیں! واہ کیا آسانی ہے! مگر ٹھہریں! کیا ہر آسانی کے ساتھ مشکل مشروط نہیں ہے؟
آنٹی میں نے لان کے ریپلیکا سوٹوں کی ایجنسی لی ہے۔آپ سب اپنے نمبر مجھے بتادیں۔میں ڈیزائن بھیج دوں گی .....“ یہ بات سن کر درس میں موجود ہر ایک نے اپنا نمبر بلا جھجک دے دیا۔دو گھنٹے بعد تمام خواتین کے موبائیل رنگ برنگے سوٹوں میں ملبوس ماڈل گرلز کے ہوش ربا پوزوں سے بھر گئے۔ کچھ بوڑھی خواتین جو اتنی زیادہ اسمارٹ نہیں ہیں اس آفت سے گھبرا گئیں۔ اس سیلاب بلا کو روکنے کے لیے انہیں اپنے نواسوں کی مدد لینی پڑی جن کے ہاتھ بیٹھے بٹھائے ایک تفریح آگئی۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ کھمبیوں کی طرح واٹس اپ گروپ اگ آئے ہیں۔ ایک ایک فرد کئی کئی جگہ پایا جاتا ہے۔تشہیری مہم کے لیے یہ گروپس یقیناً بہترین ہیں۔ مشہور شخصیات کا اپنے پرستاروں کے ساتھ گروپ یا اور کسی انتظامی امور کے لیے بنائے گئے گروپ افا دیت رکھتے ہیں مگر اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے!تجزیاتی مہارت رکھنے والے تصویر کا دونوں رخ سامنے لاتے ہیں مگر اکثریت صرف اور صرف روشن رخ دیکھنے پر اصرار کرتی ہے۔ کیا یہ درست رویہ ہے؟ مومنا نہ فراست کا تقاضہ تو یہ ہے کہ جس بات پر ہماری فلاح و نقصان کاانحصار ہو ہم اس کے تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لیں!تو اس نئی سماجی ابلاغ نے ہماری زندگی کے رحجانات وتر جیحات میں کیا تغیر ات پیدا کیے ہیں جاننا از حد ضروری ہے۔ مختلف گروپس کی وجہ سے تخلیقی اور قلمی صلاحیتوں پر پڑنے والے اثرات سے بچاؤ کیونکر ممکن ہے؟
ہمیں کچھ پہلے یہ ادراک ہوا کہ ہر وقت آن لائن رہنا تخلیقی صلاحیت کو متائثر کر رہا ہے۔ جتنی بھی مثالیں دیکھیں یہی عنصر نظر آیا۔بحیثیت ایک ادیبہ ہم نے جتنے مستند ادیبوںکو پڑھا تو اندازہ ہوا کہ انہوں نے اپنی تخلیقات، علمی اور ادبی ورثے کے لیے اپنا وقت قربان کیا، کھانے پینے حتٰی کہ گھریلو زندگی کی بھی بہت قربانی دی۔اس وقت اتنے سماجی آلات نہ تھے مگر پھر بھی ان کے پاس بڑے معاشرتی دائرے تھے جنہیں انہوں نے حدود و قیود کے تحت رکھا ہوا تھا۔ چند ایک مستثنات کے علاوہ جتنے بھی افرادنے تخلیقی کارنامے انجام دیے انہوں نے اپنے آپ کو بھیڑ چال سے بچائے رکھا۔تخلیقی صلاحیتوں کابہترین مظاہرہ جیلوں میں یا پھر خود ساختہ روپوشی سے ہی ممکن ہوا۔تخلیقی کام کرنے والوں کے لیے مجلسی زندگی سے اپنے آپ کو وقتی طور پر علیحدہ کرنا بہت ضروری ہے۔
یہ موضوع ہماری ترجیحات میں ہر گز نہیں تھا کہ افراد خود تجربہ کر کے ہی سمجھنا چاہتے ہیں اور پھر سب سے بڑا اعتراض کہ خود آن لائن رہ کر دوسروں کواس سے کیسے روکا جائے؟ مگر پچھلے دنوں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ہمیں اس پر قلم اٹھا نا پڑا۔پچھلے آٹھ دس سال سے انٹرنیٹ کی دنیا میں ہیں جہاں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جن کے اثرات ہمارے سماجی اور معاشرتی رویوں میں بھی نظر آرہے ہیں۔بحیثیت ایک ادیبہ ہمارے لیے اس میں زبر دست کشش موجود تھی۔ آن لائن مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ بلاگنگ! ....
اس سال کے آغاز میں ادیبات کا واٹس اپ گروپ بنایا گیا جس کی اطلاع ہمیں کئی ماہ بعد ایک فرد سے ملی۔ان کے مطابق حیرت ناک بات یہ کہ آپ اس گروپ میں نہیں ہیں۔ اس کے بعد کبھی اصرار، کبھی فر مائش، کبھی جذباتی دباؤ اور کبھی چاہ میں ہمیں گروپ میں شامل کر لیا جاتا اور ہم ادھر ڈوبے ادھر نکلے کے مصداق گروپ سے باہر،اندر ہوتے رہے۔اس ساری مشق میں ہمارا امیج کیا بنا؟ جوہمیں ذاتی طور پر نہیں جانتے ان کے نز دیک مغرور، بد تمیز اور بے مروت ٹھہرے جبکہ جو جانتے ہیں وہ بھی ہمارے اس رد عمل سے کچھ سہم کر دور ہوگئے!کچھ نے کہاآپ کا نکلنا بد دلی پھیلانے کا باعث بنا! کسی نے ہماری ناراضگی کا اندیشہ ظاہر کیا ........ یہاں ہم  اپنی صفائی ہر گز نہیں پیش کر رہے مگر صرف یہ عرض کرنا ہے کہ بلا اجازت اور منشاء کسی کو گروپ میں شامل کرنا کہیں بغیراجازت کسی کے گھر میں داخل ہونے کے زمرے میں تونہیں ہے؟(اس سے پہلے کئی گروپس خوشدلی سے ہماری معذرت قبول کر چکے ہیں)س سارے منظر نامے میں ہر گز ہر گز شامل کرنے والوں کی بے عزتی نہیں کہ ہمارا دین یہ کہتا ہے کہ جواب نہ ملنے پر بغیر برا مانے پلٹ جاؤ!اس معاشرتی ضابطے سے کسی کا استحقاق مجروح نہیں ہوتا! کسی کی بے عزتی نہیں ہوتی میری عزیز بہنو! اخلاص کو ناپنے کا یہ پیمانہ درست نہیں! ناراضگی یا بے مروتی کا تا ثر صحیح نہیں ہے!
چند دن پہلے پھر شامل کر لیے گئے...گروپ کے بارے میں نیک خواہشات کو ہماری رغبت جان کر ایک بار پھر داخل گروپ کرلیا گیا۔ اوربارہ گھنٹے بعد جب اپنا وائی فائی آن کیا تو سینکڑوں سے بھی زیادہ پیغامات جن کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے گھنٹوں درکار ہیں مگر پھر بھی ناقابل فہم ہی ہیں کیونکہ وہ تو تیروں کی طرح برس رہے ہوتے ہیں۔کون سی بات کس بات کے جواب میں کہی گئی ہے کچھ اندازہ نہیں ہوتا اور اندازوں کی غلطی جو ابہام پیدا کرتی ہے اس کو زائل کرنے میں مزید وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔بہر حال ان تمام پر ایک سر سری نظر ڈالنے سے کچھ باتیں سمجھ آئیں جو یہاں محض مثال کے لیے لکھ رہے ہیں کسی کی دل آزاری ہر گز مقصد نہیں!
ایک خوش قسمت خاتون عمرے کے بعد مدینے کی طرف روانہ ہورہی ہیں، گروپ کے ارکان ان کو نم دیدہ قسم کے پیغامات بھیج رہی ہیں اوروہ مستقل اپڈیٹ کے ذریعے جذبوں کو گر مارہی ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دربار میں تو تمام رابطے منقطع کر کے جانا چاہیے! ہاں بعد میں اپنے جذبات شئیر کرنے میں کوئی حرج نہیں!

 دوسری محتر مہ جو اپنے آپ کو باغی کہلوا تی ہیں انہوں نے پہلے تو کسی اور کی نظم شئیر کرکے ایک عجیب سے مغالطہ میں سارے ممبران کو مبتلا کیے رکھا بعد میں انکشاف ہوا کہ وہ کسی اور نظم کی بات کر رہی ہیں! اف خدا یا کیا وقت کا قتل جائز ہے جبکہ وقت ہی زندگی ہے! کیاہم ابہام کی بات کیے بغیر نہیں رہ سکتے؟  پھر اس کے بعد انہوں نے اپنے کسی پراجیکٹ کے لیے ڈراموں کے نام مانگے جن میں عورت پر تشدد دکھایا گیا ہوکہ میں ٹی وی نہیں دیکھتی تو ڈراموں سے لاعلم ہوں! ہنسی بھی آئی اور غصہ بھی کہ کوئی قرون وسطٰی کی معلومات تھوڑی ہیں کہ ناپید ہوں ان معلومات سے تو انٹر نیٹ بھرا پڑا ہوگا! اور ہمارا میڈیامانیٹرنگ کا پورا شعبہ ہے جو اپنا کام انجام دے رہا ہے اس سے کیوں براہ راست رابطہ نہ کیا؟ اس چکر میں گروپ کے ارکان کو الجھائے رکھا اور پھر ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا۔ میری پیاری بہن! ہم بازار میں کھڑے ہوکر کبھی بھی ہانک نہیں لگاتے بلکہ مطلوبہ دکاندار سے ہی رابطہ کرتے ہیں۔بہت معذرت مگرآئینہ کی مثال سامنے رہنی چاہیے کہ وہ ہماری صحیح شبیہ پیش کرتا ہے! 
......گروپ کے ممبران پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ سینکڑوں ممبران میں سے کچھ ہی کو براہ راست جانتے ہیں۔ ان میں چند تومستند ادیبات ہیں جبکہ کچھ نوسیکھ! کچھ یقیناً انتظامی حوالے سے ہوں گے۔ ہر ایک کی ضروریات،دلچسپیاں، اوقات، ترجیحات،ذہنی سطح مختلف ہوں گی۔ان سب کاہر وقت آن لائن رہنا (کیونکہ ٹائم زون میں اختلاف اور الگ الگ شیڈول کے باعث ہر وقت کچھ نہ کچھ لوگ دستیاب ہوتے ہیں)  کس طرح ایک صحتمند تخلیقی سرگرمی بنا سکتی ہے؟کچھ لوگ سادگی کے ہاتھوں اپنی ہر بات گروپ میں ڈالتے ہیں (کبھی اپنے مضمون کا statusمعلوم کرنا ہو یا تحقیق کے لیے لنک کی تلاش! .....وغیرہ وغیرہ) جبکہ وہ انفرادی طور پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں! ....
یہان پر یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ کچھ افراد انٹرنیٹ/ سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک کے بارے میں ریزرویشن رکھتے ہیں مگر واٹس اپ کو بڑا بے ضرر سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور میں سب سے سہل،تیز رفتار اور موئثر ابلاغی ہتھیار ہے کیونکہ انٹرنیٹ وغیرہ تو آپ کے آن لائن ہونے پر منحصر ہے جبکہ واٹس اپ موبائیل نمبر پر ہونے کی وجہ سے ہمہ وقت رابطہ ممکن ہوتا ہے۔اور موبائیل آج کے دور کی ایسی ضرورت جسے آف نہیں رکھا جا سکتا
۔دوسرے یہ کہ یہ صرف مختصر پیغامات کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔اگر مضمون پڑھوانا یا ویڈیو دکھانی ہو تو محض لنک دے دینا کافی ہے۔ چھوٹے سے اسکرین پر لمبے لمبے مضامین پڑھنا، گھنٹوں اسکرین کو تکنا، کانوں سے لگائے رکھنا، ہاتھوں میں اٹھا ئے رکھنا صحت کے حوالے سے ایک خطر ناک رحجان ہے۔ہوسکتا ہے فوری طور پر کوئی اثر نہ نظر آئے مگر بعد ازاں امکان ہو سکتا ہے خدانخواستہ!
اس معاملے میں مقاصد کا تعین، اوقات اور پیغامات کی نوعیت کے اصول و ضوابط طے کرنے بہت ضروری ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟؟
           گروپ کے ارکان؟  گروپ ایڈ منز؟        یا پھر مارک زبرگر؟؟
......................................................................................................................









4 تبصرے:

  1. Mzmoon acha he lekin thiribsi focus ki kami he. Aaghaz aik aam qari ke liye thora bojhal. Mgr Allah ne apko bht salahiat di mashallah.

    جواب دیںحذف کریں
  2. Yeh bat blkl sahi he aur zati tjrba ke takhlikhin kamon ke liye waqt social media KHA hats he. Jail wali bat bhi blkl sahi he.

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جی ہاں !یہ عملی مشاہدہ ہے کہ اچھا بھلا لکھاری سوشل میڈیا کا شکار ہوکرصرف شیئر اور لائک کا بٹن دبانے تک محدود ہوجاتا ہے۔

      حذف کریں