ہفتہ، 31 دسمبر، 2016

بچے ہمارے عہد کے






          جگنو کو دن میں پرکھنے کی ضد کریں
           بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے

مرحومہ پروین شاکر نے یہ شعر نہ جانے کس عمر کے بچوں کے لیے کہا تھا مگر یہ بات طے ہے کہ یہ بچے پچھلی صدی کے تھے کیونکہ آج کے بچے اس قسم کی کوئی نا معقول ضد یا بحث نہیں کرتے وہ تو صرف آپ سے انٹر نیٹ کا پاس ورڈ پوچھتے ہیں اور مطلوبہ معلومات خود حا صل کرلیتے ہیں۔پچھلی نسل کے پاس لے دے کے ایک لغت ہوتی تھی جس سے حتی المقدور مستفید ہوتے تھے۔ایک دفعہ کامکس پڑھتے ہوئے یوم ویلنٹائن کا ذکر آیا تو ہماری سوئی اٹک سی گئی۔پہلے تو اپنے سے بڑوں سے پوچھا۔انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کیا کرتے بے چارے!   آ ج کا دور تھوڑی تھا کہ پیدائشی بچے سے لے کر قبر میں پاؤں لٹکائے بزرگ تک اس لفظ کی جزئیات سے واقف ہوں خیر ہم نے لغت کی مدد سے معنی تو معلوم کر لیے تھے مگر سچ پوچھیں تو اس کی تفہیم بیان کرنے سے ہنوز قاصر ہیں کہ شرم سے زبان گنگ ہوجاتی ہے!  اب آپ یہ مت سمجھئے گا کہ ہم نئی اور پرانی نسل کا کوئی موازنہ پیش کر رہے ہیں ...بس کچھ باتیں ہیں جو سپرد قلم کرنا چاہ رہے ہیں! اس سے پہلے ایک اور نسل سامنے آجائے اور ہم مزید قدیم ہوجائیں۔

آج کا دور چائلڈ سنٹرڈ (بچوں کے گرد)ہے۔اس حوالے سے بچوں کی نفسیات کے ماہرین کھمبی کی طرح دستیاب ہیں۔حالانکہ اس میں ڈگری کا کیا کمال؟ جس طرح ہر فرد آپ بیتی لکھ سکتا ہے کہ کچھ نہ کچھ اس نے زندگی گزاری ہی ہوتی ہے اور اس مفروضے کے عین مطا بق ہر فرد بچپن گزار چکا ہے تو اس کی بابت اپنے تجربے بیان کر سکتا ہے اور اس کی روشنی میں بچوں سے معاملہ کرسکتا ہے۔ بہر حال سارے مفکرین کا کہنا ہے کہ بچہ ہر حال میں درست ہے یعنی سارا قصور اسے برتنے والوں کا ہے!جو جگ کی رائے وہ ہماری مگر کیا ہو کہ آج کے دور میں ایسے بھی لوگ ہیں جن کا کہنا ہے کہ بچے کی کوئی عزت وززت(عزت نفس) نہیں ہوتی جہاں بد تمیزی کرے وہیں ٹھونک دیں! بڑوں خصوصا والدین کو سو فی صد حق حاصل ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ مشہور دانشور اشفاق احمد کی بھی یہ ہی رائے ہے!
ارے آپ نے وہ واقعہ نہیں سنا؟ ایک دفعہ اشفاق صاحب  اٹلی میں کسی اداکارہ /گلوکارہ کے گھرمدعو تھے جو بچے کو کسی بھی حالت میں نہ مارنے کے فلسفے پر یقین رکھتی تھی۔ چائے کی میز پر وہ اپنے بچے کے ساتھ موجود تھی اور اس کی ہر بد تمیزی کو ہنس ہنس کر نظر انداز کرتے ہوئے اس سے بڑے میٹھے لہجے میں مخاطب تھی۔تھوڑی دیر میں کسی کا فون سننے  وہ کمرے سے باہر چلی گئی۔بچے نے اکیلے پاکر اشفاق احمد سے مہابد تمیزی شروع کردی۔ان کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔انہوں نے اسے تھپڑ سے نوازا اور کچھ ناگفتنی سنائی۔ بچہ سہم کر مؤ دب بیٹھ گیا۔ ماں پلٹ کر آئی تو اشفاق صاحب سے اپنے طریقہ پرورش پر داد چاہی کہ دیکھیں جناب میری حکمت عملی کتنی کامیاب ہے؟ور وہ دل میں بہت محظوظ ہوئے۔ ہر ایک کے لیے اپنی رائے معتبر ہوتی ہے لہذا وہ اس کا جواز ڈھونڈہی لیتا ہے۔
ہماری ایک دوست نے یہ واقعہ سناکراس کی تصدیق بھی فرمائی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی چوتھی جماعت میں زیر تعلیم بچی کوحساب کے پہاڑے یاد کروارہی تھیں جو وہ کسی طرح نہ کررہی تھی۔اس کا جواز تھا کہ میں فارمولے کے تحت ضرب تقسیم کے سوال حل کرلوں گی یاد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس بحث کا اختتام ہماری دوست نے اپنے مادرانہ حقوق استعمال کرتے ہوئے دو ہتڑ لگا کر کیا۔ نتیجہ؟ سارے پہاڑے فر فر یاد ہوگئے۔ اب آپ یہ نہ سمجھیں کہ ہماری دوست کا یہ ظالمانہ قدم ان کی جہالت کی نشانی ہے! جی نہیں! وہ ایک بہت معیاری اسکول کی پرنسپل ہیں۔
چوتھی جماعت کے ہی ایک کردار سے ملاقات کرتے ہیں! یہ ہمارے بھانجے ہیں۔ جمعہ کے دن اسکول سے توہنسی خوشی گھر پہنچے مگر تھوڑی دیر میں بسورتے ہوئے نظر آئے۔ کیا معاملہ ہے؟ تحقیق پر معلوم ہوا کہ ان کا  ’عمرو کا بھوت‘  غائب ہے۔! گھبرائیں نہیں یہ کوئی سچ مچ کا بھوت نہیں ہے بلکہ کہانی کا نام ہے جو وہ اسکول جاتے ہوئے کہیں حفاظت سے رکھ گئے تھے کہ واپس آکرپڑھوں گا اور اب غائب ہے۔یقینا ان کی بڑی آپی کا ہاتھ ہوگا جو انہوں نے اسے مخرب الاخلاق جان کر ان کی پہنچ سے دور کر دیا ہوگا۔ہمارے سامنے مقدمہ آیا تو کچھ یاد کرکے ہم کھلکھلا کرہنس پڑے۔ برسوں پرانی بات ہے جب ہمارے چھوٹے بھائی کے ساتھ بھی یہ معاملہ پیش آیا۔وہ اسکول سے تو نہیں آئے (کیونکہ ان دنوں جمعہ کی چھٹی ہوا کرتی تھی) مگر امی جان نے ان کو نہلا دھلا کر جمعہ کے لیے تیار کیا اور وہ صاف ستھرے بستر میں لیٹ کر’عمرو اور اٹکی شہزادی‘  پڑھنے لگے۔ہم ان دنوں کچھ کچھ اسلامی لٹریچر کی طرف مائل ہوچلے تھے یہ دیکھ کر سخت برانگیختہ ہوئے اور ان کے ہاتھ سے اس کثیف کتاب (بارش میں بھیگنے کی وجہ سے سخت تعفن زدہ ہوگئی تھی)کو چھین کر ردی کی ٹوکری میں رکھ دیا۔بھائی اس ناگہانی پر گھبرا اٹھے مگر کچھ کہے بغیر خاموشی سے کتاب واپس لاکرسابقہ پوزیشن میں دراز ہوکر سلسلہ وہیں سے شروع کردیا جہاں سے منقطع ہوا تھا۔ ہم ہاتھ دھو کر کمرے میں آئے اوریہ منظر دیکھا تو آگ بگولہ ہوگئے اور آؤ دیکھا نہ تاؤ،ہاتھ پر لگی خوشبودار کریم کی پرواہ کیے بغیر اس کتاب کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔
طاقت استعمال کرنے کانتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلتا (یہ ہمیں اسی وقت اندازہ ہوا تھا) ہمیشہ ہنگامے پھوٹ پڑتے ہیں اور یہاں بھائی کا  احتجاجی رونا دھونا، ہماری شیلف کی طرف بری نیت سے بڑھنا،امی کی مداخلت وغیرہ وغیرہ اورجناب! معاملہ رفع دفع یوں ہوا کہ بڑے بھائی نے شام کے وقت ان کو ابن انشاء کے دو سفر نامے جاکر دلوائے.....تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے!برسوں بعد وہی واقعہ مختلف کرداروں کے ساتھ پیش آتے دیکھا توبر وقت اس کو بیان کرکے ہم نے ممکنہ نتائج سے اپنی بھانجی کوآگاہ کیا۔یقین کریں ہماری بات نے اثر کیا جب تھوڑی دیر میں  ’عمرو کا بھوت‘  کہیں سے نمودار ہوگیا اوریوں برسوں پرانے واقعے کا انجام دہرایا نہ جا سکا....آپ اس واقعے سے اپنے مطلب کے کئی مفروضے نکال سکتے ہیں ...  مثلا ہر دور کے بچے الف لیلیٰ قسم کی کہانی پسند کرتے ہیں، ہر دور میں چھوٹے بہن بھائی اپنے بڑوں کی جارحیت کا شکار ہوتے ہیں۔ بہن بھائیوں کے جھگڑے میں بھگتان ہمیشہ بڑے بھائی کو ہی ادا کرنا پڑ تا ہے ... وغیرہ وغیرہ! اپنے نفع و نقصان کی فکر مندی سب کو ہوتی ہے یعنی خطرات و خدشات کا علم ہوجانے پر کسی انتہائی اقدام سے رک جاتے ہیں۔
علم کی بات ہو تو حضرت علی ؓ کا نام یاد آجا تا ہے۔ بچوں کی تر بیت کے بارے میں ان کا مشہور مقولہ بہت زیادہ گردش میں ہے۔ جی ہاں! بچے کی عمر کے ادوار کے لحاظ سے کچھ یوں ہے کہ پہلے سات سال بچے سے کھیلو، اگلے سات سال ادب سکھاؤ اور پھر سات سال دوستی کرو۔ کچھ نا عاقبت اندیش والدین یا سر پرست اس ترتیب کو گڈ مڈ کردیتے ہیں۔نتیجہ یہ کہ سر پکڑے ماہرین سے مشورہ طلب کرتے نظر آتے ہیں۔ چونکہ ایسے والدین کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے لہذاطلب اور ترسیل(ڈیمانڈ اور سپلائی) کے فارمولے کے تحت ایسے ماہرین کا تناسب بھی بڑھ رہا ہے۔  یہ ہی بات ہے جو ہم نے آغاز میں کہی ہے۔
چاہے آپ نے ایک بھی بچہ کی پرورش نہ کی ہو مگر پھر بھی اپنے ارد گرد کے بچوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بچے کے بگڑنے کا تعلق محض زمانے یا میڈیا /سوشل میڈیا سے نہیں ہوتا بلکہ اس میں کہیں نہ کہیں عمر کے اس دور کا ہاتھ ہوتا ہے جس میں وہ ہوتے ہیں۔جب چھوٹے ہوں تودوڑ دوڑ کر کام کر رہے ہوتے ہیں، ہر اس کام میں لپکتے ہیں جس میں ان کے لیے خطرہ ہو اور جب  اس کام کو باآسانی کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو حیران ہوکر پوچھتے ہیں اچھا یہ کیسے ہوگا؟  مثلا ہمارے گھر کے بچے چھٹپن میں کھانا پکانے میں بہت لپکتے تھے۔روزانہ کی بنیاد پر کیک،سنڈوچز، ڈونٹس یا پھر چائینیز کی سر گرمی ہوتی جس میں انہوں نے کیا کرناہوتا بڑوں کو ہی تھکنا ہوتا تھا اور بجٹ الگ متا ثر ہوتا۔ مگر بچوں کے سیکھنے اور ان کو مصروف رکھنے کے لیے برداشت کیا جا تا۔ مزے کی بات کہ لڑکے بھی روتے کہ ان سے تو کچھ کام ہی نہیں لیا جا رہا۔ان سے سبزیوں کی کٹنگ یا کیک کی سجاوٹ کا کام مجبوراً لینا پڑتا جس میں نقصان اور وقت کی بربادی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔یہ وقت گزرا اور بچے جب اس قابل ہوگئے کہ یہ کام خود کرسکیں تو بیکریوں اور ریسٹورنٹ کی معلومات جمع کرتے نظر آتے ہیں۔اور کبھی کوئی چیز  تیار کرنے میں غلطی سے ان کوشامل کرلیں تو حیرت سے پوچھتے ہیں ...اچھا! یہ گھر میں بھی بنتے ہیں؟
باتیں اور واقعات تو اور بھی بہت ہیں مگرمضمون میں الفاظ کی حد ختم ہوگئی ہے لہذا یہیں بات مختصر کردیتے ہیں۔بس یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ بچوں کو ٹھوکنے اور ٹوکنے کا فیصلہ حالات و واقعات اور ان کے پس منظر میں کیا جا ئے کہ محفوظ راستہ یہ ہی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

         فر حت طاہر  

مشرق کے آنگن میں مغرب

 ا



   قصہ کچھ یوں ہے کہ ہم نے اپنے گھر کام کرنے والی لڑکی کو سلائی کا ہنر سکھانے کا ارادہ کیا(اسے ہماری بے وقوفی نہ سمجھیں کہ سلائی سیکھ کر وہ ہاتھ کہاں لگے گی! اس مفروضے کے بجائے ہماری دانش مندی کو داد دیں کہ گھر بیٹھے کپڑے سلواسکیں گے ...خیر جناب بچے کے کپڑے سے آغاز ہوا۔اس کے بعد سادے سوٹ کی باری آئی۔ پہلے نمبر پر شلوار کا خاکہ بناکر دیا۔ وہ ایسے چونکی جیسے کوئی متروکہ لفظ کہہ دیا ہو ہم نے!
  ” ...شلوار؟  یا پاجامہ..  ٹر ... ٹرو “ اس کی ٹر ٹر نے بتا دیاکہ وہ کیا کہنا چاہ رہی ہے۔جی ہاں ٹراؤزر!  اس کے اعتراض پر سوچ میں پڑ گئے کہ شلوار کیا ہے؟ یہ ہماری زندگی میں کب سے ہے؟ بہت بچپن میں بھی شلوار کے بغیر فراک ادھوری لگتی تھی ..پھر جمپر کے ساتھ بیل باٹم اور فلیپر بھی پہنا! کبھی کبھار ترکی یا میمنی شلوار بھی پہنی۔
پہلی دفعہ شلوار سینے کا اتفاق انٹر کی چھٹیوں میں ہوا جب ہم با قاعدہ سلائی سیکھ رہے تھے۔ ورنہ اس سے پہلے تو بس امی یا کسی بڑے کے کہنے پر سلائی جوڑ دیتے تھے ....اس موقع پر مشہور مصنفہ سلمٰی یاسمین نجمی کا مزیدار مضمون پڑھنے کو ملا جس میں انہوں نے اپنی شلوار کی سلائی کو موضوع گفتگو بنا یا تھا!  زبر دست ترکیب (articulation(ہوتی ہے کسی پزل کی طرح ٹکڑے جڑ تے چلے جاتے ہیں اور شلوار تیار!!ہاں تو ہم شلوار سینا سیکھ گئے۔اتنا مزہ آ یا کہ بتا یا نہیں جا سکتا!  خاص طور پر بیلٹ لگانا! خاصہ ہنر مندی کا کا م ہے جیسے حساب میں فارمولے لگاکر مطلوبہ جواب حاصل کر لیا جا ئے تو خوشی حاصل ہوتی ہے!
شلوار سینا اتنا بڑا فن ہے ہمیں تو اندازہ ہی نہیں ہوتا! وہ تو ہماری بھاوج جو مشرق وسطٰی سے تعلق رکھتی ہیں جب پاکستانی شلوار لے کر مقامی اعلٰی درزی کے پاس لے کر گئیں کہ ایسی بنا دو تو وہ اپنے تمام ہنر و فن کے باوجود اس کو ڈیزائن کرنے سے قاصر رہا اور یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ .....پاکستانی بہت نفیس اور اعلٰی ذہن رکھتے ہیں ....!تو عزیز بہنو! ہماری شلوار بہت بڑا شاہکارہے۔اس کی قدر کریں کہ اس کو سینا اور پہننا عمدہ ذوق کی نشانی ہے!  آئیے! اپنی شلوار کو رواج دے کر واپس لائیں!
یہاں پر ہماری بات مکمل ہوگئی مگر نہیں ابھی کہاں؟ بات دراصل یہ ہے کہ واپس لانے کا،مطلب یہ ہے کہ وہ گم ہوگئی ہے۔ یہ کب ہوا؟؟ متعین وقت تو نہیں بتا یا جا سکتا کیونکہ آہستہ آہستہ معدوم ہونے والی چیزوں کا ریکارڈ مرتب نہیں رکھا جا سکتا۔ہاں اتنا یاد ہے کہ تقریبا  آٹھ برس قبل اپنی والدہ کے طبی معائنے اور علاج کے لیے اسپتال بہت جانا پڑ رہا تھا۔ انتظار گاہ میں بیٹھے بیٹھے کچھ خواتین کو حد سے لمبی قمیض اورشلوار کی جگہ ایک تھیلا نما چیز پہنے دیکھا۔غرارہ کی کون سی شکل ہے؟ کچھ سمجھ نہ آیا!یہ نیا فیشن ہے یا یہ خاتون بیرون ملک سے در آمد ہوئی ہیں۔ اگلی بار جانا ہوا تو ڈاکٹرز کے علاوہ کئی وزیٹرز بھی اسی حلیے کا شکار نظر آئیں! اوہ تو یہ نیا فیشن ہے! سمجھ میں آیا تو خوشی ہوئی کہ سترپوشیکے لحاظ سے مناسب ہے اگر چہ کپڑے کا ضیاع نظرا ٓرہا ہے۔
          خیر اس کے بعد تو ہر ایک کو اپنے پرانے کپڑے آک ورڈ لگنے لگے اور سب نے اپنی وارڈروب تبدیل کرڈالی،جو نہ ہوسکے ان کے نیچے بیلیں لگا کر ممکنہ لمبائی حاصل کر لی گئی اور چوڑائی میں اضافہ کلیاں لگاکے پوری کر دی گئیں ....رفتہ رفتہ یہ صورت حال ہوگئی کہ پورے سوٹ میں صرف اوپر کا لبادہ تیار ہو سکتا ہے اورپھر تو شامیانہ ہی تیار ہونے لگا جس میں لگتا تھا پورا تھان ہی تھوپ لیا گیا ہے ...اور شاید یہ ہی وقت تھا جب شلوار پہننا اور نہ پہننا برابر ہوگیا لہذا شلوار غائب کر دی گئی..اور اس کی جگہ لیگنگز نے لے لی۔ جو یہ نہ پہن سکتی تھیں انہوں نے چوڑی دار پاجامہ سلوالیا۔یہاں تک کہ ہر عمر کی خاتون اپنی بساط بھر اسی حلیے میں آگئی۔ایک دن ہماری عزیزہ نے بتایا کہ ہماری میڈم (ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں) لیگنگز پہن کر آئیں تو سارے آفس والے انگشت بدنداں تھے اور ہمیں  اپنے بچپن کا واقعہ یاد آیا جب ہمارے والد نے گھر آکر تذکرہ کیا کہ ایک محتر مہ شاید غلطی سے باریک شلوار پہن کر یونیورسٹی آگئیں۔اور جب ان کی غلط فہمی دور کی گئی کہ غلطی نہیں بلکہ اب لان کی شلواریں آگئی ہیں تو انہوں نے ناپسندیدگی کااظہار کیا۔نتیجہ؟ ہماری امی نے مرتے دم تک لان کی شلوار نہ پہنی۔
بہر حال کئی موسم بدلے اور فیشن ایجاد کرنے والے بھی کچھ اکتا سے گئے تھے۔(فیشن ڈیزائنر کا ٹارگٹ ٹین ایجرز ہوتے ہیں مگر کیا ہو کہ جب وہ بیس سالہ بیٹی، چالیس سالہ ماں اور ساٹھ سالہ نانی کو ایک ہی سے حلیے میں دیکھیں تو فیشن تبدیل کر دیتے ہیں)چنانچہ قمیضیں نارمل ہوتے ہوتے ایکسٹرا شارٹ ہوگئیں جبکہ شلواروں کی جگہ ٹراؤزر نے لے لیں۔سینے میں نسبتا آسان ہونے کی وجہ سے بہت جلدی درزیوں نے اسے ہاٹ فیورٹ بنوادیا۔انواع و اقسام کے پاجامے بازار میں دستیاب ہوگئے۔  
  یہ 2006 ء کی بات ہے۔انگلش میڈیا کی مانیٹرنگ ہمارے ذمہ تھی۔ تو ایک مشہوربین الاقوامی فیشن ڈیزائنر سنبل کا انٹرویو پڑھنے کا موقع ملا۔ اس کا کہنا تھا کہ پاکستان  جیسے ملک میں یہ منظر آنے میں کچھ وقت لگے گا کہ خواتین اسکرٹ (یقینامنی اسکرٹ)پہنے اسٹاپ پر کھڑی ہوں! ان کی یہ حسرت یا خواہش محض دس سال کے اندر ہی پایہ تکمیل کو پہنچ گئی جب اسکن کلر کی ٹائٹ میں ملبوس خواتین اور لڑکیاں جگہ جگہ نظر آنے لگیں۔میرے خیال میں مستنصر حسین تارڑ کو کسی یورپی ملک کی منظر کشی کرنے کے لیے اسپین، اٹلی یا فرانس جانے کی ضرورت نہیں رہی گھر سے نکل کر بازار اور سڑک پر آئیں ہر طرف یہ ہی منظرہے جب  بس کے پائیدان پر لٹکی لڑکی کی قمیض کا دامن ذرا سی حرکت پر اوپر اٹھتا ہے اور لمبے لمبے چاکوں سے بڑی دور تک نظارہ ہوتا ہے۔ اپنی مشرقیت کا پر چار کرنے والی خواتین چوڑی دار پاجا مے کو اپنی نانی،دادی کی پہچان کہہ کر بڑے فخر سے اپناتی ہیں۔ وہ تو یہ لباس پہن کر ٹھاٹھ سے گھر میں بیٹھا کرتی تھیں آج کل کی بے چاریوں کی طرح یوں خوار نہ ہوتی تھیں اور پھر اس کے ساتھ لمبے گھیر دار پشوازاور جمپر ہوتے تھے، یہ ننھی منی کرتیاں نہیں!
بے پردہ گھومنے والی خواتین کی بات الگ ہے پردہ دار خواتین کے لیے تو اس کی بہت گنجائش ہے۔وہ تو گھروں میں یا خواتین کی محفل میں ہوتی ہیں۔ان کے پہننے میں کوئی حرج نہیں! یہ تھا موضوع جو کسی ایسے ہی ایک اجتماع میں زیر بحث آ یا۔ٹراؤزر پہننے والیوں نے اعتراض کرنے والیوں کو جواب دیا۔اس بات کو اتنا ایشو کیوں بنا یا جا رہا ہے؟ اسلام میں پاجا مہ کا ہی ذکر ہے۔ شلوار تو صرف ہمارے خطے میں ہی  پہنی جاتی ہے....ہم بھی اس دلیل کے قائل ہوگئے اور جب اپنی ہم عمر،ہم جثہ خواتین کو پہنے دیکھا تو ایک دو پاجامے بنا ڈالے۔سینا ضرور آسان ہے مگر استعمال نہیں خصوصا اٹھنا بیٹھنا مشکل! نماز پڑھتے ہوئے عجیب صورت حال! خود تو جو تکلیف ہو فیشن کے نام پر گوارا مگر  دیکھنے والوں پر کیا گزرتی ہے؟  بس یہ سوچ کر ہم نے ان کو تقسیم کردیا۔
کو ایجو کیشن کالج میں پڑھانے والی ایک لیکچرر نے کسی دعوت کے دوران نماز پڑھنے کے لیے جب اپنے ہائی ہیل اتار کر اپنے ٹراؤ زر کے بکل ڈھیلے کیے تو ہم اس کمرے سے ہٹ گئے۔خوامخواہ کی بد نگاہی کا کیا فائدہ؟ مگر کئی دفعہ دوران محفل نماز پڑھنے کا موقع ملا تو یقین کریں سجدہ سہو ضرور کرنا پڑا۔ظاہر ہے آپ کے سامنے جو منظر ہو تو کبھی سجدے بھول گئے تو کبھی تشہد! توبہ توبہ!اپنی گھیردا ر شلوار کی کیا بات ہے! آرام دہ اور دیدہ زیب!اپنی تہذیب،اپنا پہناوا! ہماری ایک آنٹی انڈین شلواروں کو دیکھ کر بہت منہ بناتی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عورتیں کبھی ایسی پتلی /چست شلواریں استعمال نہیں کر سکتیں یہ تو فاقہ زدہ ہندوؤں کا پہناوا ہے۔معلوم نہیں اب ان کا کیا رد عمل ہے؟
پیاری بہنو!
ہماری شلوارہماری اقدار!یہ نہ سمجھیں کہ ہم یکساں الفاظ کی گردان کروا رہے ہیں جو شوشوں، نقطوں اور الفاظ کی بناوٹ سے تبدیل ہو جاتے ہیں بلکہ یہ دراصل اپنی گم گشتہ شلوار کا نوحہ ہے جسے ہم نے فی زمانہ مستعمل لفظ اقدار سے جوڑ دیا ہے! کہنے والے کہیں گے کہ کیا سارے مسئلے ختم ہوگئے ہیں جو شلوار،پاجامے کی بحث چھیڑ دی گئی ہے۔یہ مضمون پچھلے دوسال سے ہمارے کمپیوٹر میں اٹکاہوا تھا اور اسی اعتراض کا سوچ کر بھیجا نہیں جا سکا تھا مگر ہمارا لباس،ہمارا طرز معاشرت اتنا معمولی نہیں کہ اس سے یوں صرف نظر کیا جائے۔ اور پھر لباس کی تبدیلی کا یہ سفر کیا روکنے سے رکے گا؟ اس حوالے سے کچھ جینز کا ذکر بھی ہوجائے....مغرب کا یہ تحفہ وہاں بھی کچھ ہی عرصے پہلے ایجاد ہوا ہے ...اس زمانے میں وہاں کی مائیں اپنی لڑکیوں کو جینز پہن کر باہر نہ نکلنے کی ہدایت کرتی تھیں اور اور اب کہتی ہیں  ...کچھ تو پہن لیا کرو باہر جاتے وقت...! کیا ہم بھی اس ابلیسی دوڑ میں شامل ہیں؟کیا واقعی  بقول سلیم احمد    ”مشرق مغرب سے ہار گیا ہے؟؟.....“
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ٌ     فر حت طاہر


 
          



منگل، 13 دسمبر، 2016

کہاں ہیں امت کے بابا ؟


   حلب جل رہا ہے!

  ذاتی طور پر حلب (Aleppo)کا نام پہلی دفعہ 1987ء میں سنا جب ہمارے والد ایک انٹر نیشنل اسلامک کانفرنس کے علمی و تحقیقی سیشن میں شر کت کے لیے وہاں گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں روسی افواج شکست سے دو چار ہورہی تھیں اور پوری اسلامی دنیا میں بیداری کی ایک لہر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ ان ہی جذبوں میں ٹیکنالوجی کے حصول کے ساتھ ساتھ اپنے وسائل میں اضافہ اور خود مختاری کے جذبات بھی شامل تھے۔ یہ کانفرنس اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ ہمارے والد کے مقالے کا موضوع اسلامی دنیا میں آبپاشی کے طریقے تھا۔ انبیاؤں کی سرزمین میں اس عنوان سے بحث روشن مستقبل اور امکانات کی ایک نئی دنیا تھی۔
یہ ساری باتیں ہم اب کہہ رہے ہیں ورنہ در حقیقت اس زمانے میں ہماری دلچسپی سر زمین شام خصو صاً حلب سے آئے ہوئے تحائف میں تھی۔ ملبوسات سے لے کر خوشبویات اور حلویات! اپنے مضمون کو آگے بڑھا نے سے پہلے ہم کانفرنس کی بات مکمل کرلیتے ہیں! جی ہاں بیداری کی اس لہر کو ہنود اور یہود نے محسوس کرتے ہوئے جلد زائل کر کردیا۔  بہت پیار سے! یہ کہہ کر کہ مسلمانو! آپ کیوں اپنی جان گھلاتے ہیں ہم ہیں نا! تحقیق اور جستجو کے لیے ....اور ویسے بھی خطے میں پرانی بساط لپیٹ کر نئی بچھائی جا رہی تھی۔جلد ہی ضیاء الحق کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا اور اس کے بعد ساری مستعدی ہوا ہوگئی۔بھاگ دوڑ فائلوں میں ہی رہ گئی جسے وقت کے ساتھ دیمک کھاگئی یا پھر وائرس!
 ہمارے والد شام کے علماء اور وہاں کی لائبریریوں سے رابطے میں رہتے تھے۔وہاں سے انواع و اقسام کی نادر کتب کے ذخیرے جمع کرتے جو اس وقت تو ہمیں محض اپنے خوبصورت اور دیدہ زیب جلدوں کی وجہ سے اچھی لگتی تھیں کہ ڈرائنگ روم کی زینت تھے۔ کچھ عر صے بعد  ہمارے بھائی کو تعلیم سے فارغ ہوتے ہی وہیں ملازمت مل گئی۔ دمشق کے ایک قصبے دیرالزور میں ان کی پوسٹنگ تھی۔اتفاق سے ان کی شادی بھی ایک شامی خاتون سے ہوئی۔جس کے بعد دمشق گویا ہمارا دوسرا گھر بن گیا۔ ہر سال بلکہ کبھی کبھار سال میں دو دفعہ جب وہ پاکستان آتے تووہاں کی سوغاتیں ہم سب کے لیے خوشی کا با عث بنتیں۔کھانے کی کوئی شئے ہو یا پہننے کی، سجاوٹ کی ہو یا ضرورت کی ہر شاپنگ بیگ پر لکھے تمام شہروں کے نام میں حلب ضرور ہوتا۔ معلوم ہوا کہ اگر چہ دمشق دنیا کا قدیم ترین شہر ہے مگر حلب ایک ثقافتی اورترقی یافتہ شہر ہے!بھائی کے مطابق مسجد اقصیٰ ان کے گھر سےمحض چالیس پینتا لیس منٹ کی مسافت پر ہے لیکن  ظا ہر ہے ایک پاکستا نی کی حیثیت سے وہا ں جا نا ممکن نہیں!
   ہماری بھاوج ایک سگھڑ، مجلسی اور باتونی خاتون ہیں۔وضع قطع میں کچھ کچھ یورپی مگر روایات و اقدار اور آداب اسلامی اور ایشیائی!انہوں نے شروع شروع میں اردو سیکھنے کی کوشش کی مگر جب اردو، عربی انگلش کی چٹنی سے کام چلنے لگا تو یہ مہم جوئی ختم کردی۔ جب وہ کراچی ہوتے تو شہر کا کونا کونا چھان مارتے۔ فر نیچر سے لے کر مصالحہ جات تک کوئی دکان چھوڑی نہ جاتی۔ تفریح گاہوں سے لے کر رشتہ دار ں تک! گفتگو کا محاذ ہمیشہ گرم رہتا۔بچوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے لے کر دنیا بھر کے حالات! دونوں ملکوں، شہروں کی ثقافت کے مختلف پہلوؤں پر ضرور بات  ہوتی۔ مگر سیاست ایسا موضوع ہوتا جس پر ہماری بھاوج خاموش ہوجاتیں ....ہم پاکستانی خواہ کتنے ہی گئے گزرے ہیں مگر بقول شخصے یہاں بھونکنے کی تو آزادی ہے۔! جی ہاں ہم نے جبر کا لفظ صرف پڑھا ہے اسے برتا نہیں! خوب دھڑلے سے سیاست اور سیاست دانوں پربات کرتے ہیں مگر عرب دنیا میں یہ موضوع شجر ممنوعہ ہے۔ خصوصاً شا م میں ایک اقلیتی فرقے کی حکمرانی تھی اور ہے جس کے باعث وہاں کے شہری محتاط ہیں۔ دروز فر قے سے تعلق رکھنے والے شام کے صدر حافظ الاسد نے 1963 ء میں بر سر اقتدار آکر سنی العقیدہ مسلمانوں خصو صاًاخوان المسلمین پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہوئے تھے کہ لوگ اس سے تعلق رکھنے یا اس کی اصطلاحات استعمال کرنے سے خوف زدہ رہتے تھے۔
2000ء میں بھائی کی فیملی کراچی میں تھی۔مستقل سیاہ لباس زیب تن کرنے کی وجہ بچیوں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں سمجھا ئی کہ ان کے صدر (حافظ الاسد) کا انتقال ہوگیا ہے۔ مزید یہ کہ نیا صد رنو جوان ڈاکٹر ہے اسی سال اس کی شادی بھی ہوئی ہے۔ امید ہے کہ اچھا ثابت ہوگا! آہ خوش فہمیوں کے دلاسے! کفن چور باپ بیٹے کی کہاوت یاد آگئی۔ بشار الاسدنے اپنے باپ کے جبرکا تسلسل  ایسا بڑھا یا کہ لوگ باپ کو بھول گئے! مسیحا کو انسانیت دوست کہا جا تا ہے مگر شام کے بد قسمت شہریوں کے لیے تو یہ قصائی ہے جس کے ہاتھ معصوموں کے خون سے لتھڑے ہوئے ہیں۔
 ملکی سطح پر پاکستان اور شام کے تعلقات دوستانہ کبھی نہیں رہے۔دونوں ممالک کے تحفظات ایک دوسرے کے لیے ہیں۔یہ 2001ء کا ذکر ہے جب صدر مشرف دمشق گئے تو وہاں موجود پاکستانیوں سے ملاقات کی جس میں بھائی کا خاندان بھی تھا۔ اس کی تصویر ڈان سمیت تمام اخبارات میں شائع ہوئی۔ اس تصویر کے حوالے سے اپنے بھائی کو خط لکھا تو جب یہ وہاں پہنچاتو وزارت خارجہ نے اس اردو خط کا ترجمہ کروایا اور اس جملے کو پڑھنے کے بعد بھا ئی کو طلب کر کے متنبہ کیا کہ ذاتی خطوط میں سیاسی معاملات کا ذکر نہ کیا کریں! پاکستان آمد پر بھائی نے اس واقعے کا ذکر بطور لطیفہ کیا اور بھاوج نے مذاق کیا کہ جب تم آؤ گی تو تم سے پوچھ گچھ ہوگی! ہم نے اس دھمکی کا کوئی نوٹس نہیں لیا تھا مگر یہ بھی محض اتفاق ہے کہ ان کے وہاں بیس بر سوں کے قیام میں ہمارا جا نا ممکن نہ ہو سکا!
  یہ فروری 2011ء کی ایک خنک صبح تھی جب دمشق سے بھائی کا فون آیا۔وہ اگلے ہفتے  مع فیملی انگلینڈ جارہے ہیں واپسی میں کراچی سے ہمیں بھی ساتھ لے کر دمشق چلیں گے!  انہوں نے مارچ کے آخری ہفتے کی بکنگ کرانے کو کہا کہ اب موسم بہتر ہوگیا ہے شام، مصر،ترکی کے بعد عمرہ کی ادائیگی! ان دنوں عرب بہار کی دھوم تھی لہذا ہم نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس کے جوا ب میں بھائی نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہاں امن ہے! اس وقت رات کے دو بجے ہیں اور ہم ابھی شاپنگ کر کے لوٹے ہیں ....(دمشق کی راتیں جاگتی ہیں!) ....
یہ اطمینان کی آخری گفتگو تھی کیونکہ اس کے بعد وہاں کے حالات جو بد سے بد ترہوتے گئے وہ سب کے سامنے ہے! شام کی خرابی احادیث سے منقول ہے مگر یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوگا تصور میں نہ تھا۔زندگی کا رنگ بدلنے میں محض چوبیس دن لگے اور وہ اپنے کھنڈر ہونے والے شہر کو پھر واپس نہ جا سکے!جانیں تو بچ گئیں مگر تتر بتر ہونے والے اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے غم نے زندگی کو اشکوں میں ڈبو دیاجس کا کوئی مداوا نہیں!.... اور گزرا سال تو بد ترین ہے کہ دنیا کی ہر جارحیت کے لیے میدان مبارزت ہے۔یہ مضمون گھمبیرجنگی معاملات سے قطع نظر محض ذاتی احساسات کے طور پر لکھا گیا ہے مگر یہ صرف ایک خاندان کی کہانی تو نہیں ہے،پوری قوم کی در بدری ہے!
پچھلے دنوں ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی جس میں اہل شام کی مظلومیت کے بجائے دبئی، یورپ اور دیگر ملکوں سے اظہار ہمدردی کی گئی تھی کہ اصل توجہ تو عیش و عشرت میں ڈوبے دنیا بھر کے مسلمانوں کو کرنی چاہیے کہ شام کے لوگ تو اپنے ریوڑ میں واپس آرہے ہیں ...جی ہاں! ہلاکو خان کی بیٹی کا مکالمہ ایک عالم دین سے  تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے۔ مذکورہ واقعے سے معلوم ہوتاہے کہ جب تک مسلمان اپنی پناہ گاہ یعنی اسلام میں نہیں داخل ہوں گے اسی طرح ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے! اسکول کے دوران مغلیہ دور کا زوال پڑھتے ہوئے ہم بہن بھائی اس بات پر افسوس بھری حیرت کا اظہار کرتے تھے کہ شہزادے کس طرح اس بے بسی سے ماردیے گئے(ہمارے خیال میں بادشاہ تو بہت طاقت ور ہوتے تھے!)اور آج مسلمانوں کو بے بسی سے مرتا دیکھ کر یقین آگیا ہے کہ طاقت کا انحصار صرف وسائل سے نہیں مشروط بلکہ اس کے لیے جذبہ ایمانی درکار ہے جو آج کے مسلمان میں مفقود ہے۔
دنیا بھر میں پھیلی ہوئی امت مسلمہ جس طرح اپنے داخلی اور سطحی مسائل میں گھری ہوئی ہے سوائے افسوس کے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔اور احادیث میں توغزوہ ہندکا بھی ذکر ملتا ہے۔اس کی ہم نے کیا تیا ری ہے؟ غفلتوں میں ڈوبی، زندگی کا لطف اٹھا تی اور برسوں کی منصوبہ بندی کرتی ہماری قوم! پتہ نہیں اس کے پاس چوبیس دن یا گھنٹے بھی ہیں یا نہیں؟
................................................................................................................

  فر حت طاہر  

منگل، 6 دسمبر، 2016

"۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہے ! ''

                                                                       
  
گھر میں تنہا اور کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے کھانا پکانے کی مہلت نہ ملی ۔شدید بھوک کا احساس ہوتے ہی کھانے کی طرف نظر کی ۔  ڈبے میں ایک  روٹی نظر آئی تو لپک کے اٹھا لی ۔سالن کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھا اور بے اختیار منہ سے نکلا   
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     " اف ! ،،،،کچھ بھی نہیں ہے ،،،! ٗ"

مگر یہ جملہ ادھورا ہی رہ گیا جب نظر سامنے پڑی اور اچار، جام ،جیلی کی بوتل نظر آئی ۔ریک پر شہد اور سر کے /ساس کے جار دھرے تھے۔  ٹوکری میں انڈے رکھے تھے ۔ گھی اور تیل بھی کاؤنٹر پر ہی تھے۔فرج کھولا تو دودھ ، مکھن ، پنیر، کریم، دہی بھی موجود تھے۔ فریزر میں کباب تھے اور شاید کسی بچے قورمے یا چکن کڑھائی کی ڈش بھی تھی۔ فروزن غذا کی بھی اچھی خاصی مقدار تھی جنہیں مائکرو ویو میں فوری طور پر ڈی فراسٹ کیا جا سکتا تھا۔ آئس کریم اور چاکلیٹ بھی نظر آئے۔  ڈبے میں کئی قسم کی  رنگ برنگی سبزیاں بہار دکھا رہی تھیں ۔ آلو بھی ابالے یا تلے جا سکتے تھے ۔اناج کے حصے  میں دلیہ اورکئی طرح کی دالیں موجود تھیں جو ذرا سی محنت سے پک سکتی تھیں،،،،،
لمحے بھر میں سب کچھ جائزہ  لے لیا اور جملہ پورے ہونے سے پہلے ہی آنسو گالوں پر بہہ نکلے ۔میرے محمد ؐ نے کبھی دودن لگا تا ر گیہوں کی روٹی نہ کھائی اور ہم اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ذراسی کمی ہوتو کہہ بیٹھیں کہ  کچھ بھی نہیں ہے ؟؟ کیا ہمیں کچھ نہ ہونے  کادرست ادراک ہے ؟  دنیا کے بہترین اناج گیہوں  کو کچھ نہ گردانیں ؟                                                 بچے کھا نا دیکھتے ہی کہہ اٹھتے ہیں    " کیا یہ ہی پکا ہے ؟  مجھے نہیں کھا نا؟کچھ اور نہیں ہے ؟  "     مرد حضرات بھی زیادہ تر یہ ہی جملہ کہتے نظر آتے ہیں    " چلو یہ ہی کھالیتے ہیں شکر کر کے " اور  جس عمدہ کھانے کو معیار سے کم سمجھتےہوئے زبردستی کھا رہے ہوتے ہیں وہ شاید میرے آقا ؐ کے کئی مہینوں کی غذا کے برابر ہو ! وہاں تو کئی کئی ماہ چولہا نہیں جلتا تھا ،،،،،،،،، میں آگے نہ سوچ سکی اور آنسوؤں کو پیتے ہوئے  وہ روٹی رغبت سے کھالی۔
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''٭فر حت طاہر ٭''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''





ہفتہ، 3 دسمبر، 2016

تخلیقی صلاحیت بمقابلہ سماجی روابط

  
 

 فروری 2014 ء میں مارک زبرگر کے واٹس اپ کو اپنا نے کے نتیجے میں روابط کا ایک حیران کن سلسلہ قائم ہوگیا۔ اس سے پہلے یہ ایک بے رونق اور خاموش میڈیم تھا مگر اس میں اب اتنی ایپلی کیشن ڈال دی گئیں کہ ا س نے تعلقات اور تجارت میں تہلکہ مچاکر اس کے حجم میں بیش بہا اضافہ کردیا۔روابط کا نا قابل یقین دائرہ وجود میں آگیا ہے جس کی نہ کوئی حدود ہیں اور نہ کوئی قوانین! س کے بعد اسمارٹ فونز کی مارکٹنگ میں ہوش ربااضافہ دیکھنے کو ملا اور نت نئے ڈیزائن مارکٹ میں چھا گئے۔
2011ء میں جب بھائی نے مجھے اسمارٹ فون باہر سے تحفے میں لاکر دیا تو میں اس کے استعمال کے بارے میں بڑی مایوس تھی کہ میرے دو ڈھائی سوسے زائد روابط میں سے کسی کے پاس نہ تھا۔ اور اب یہ حال ہے کہ پلمبر نل کا ڈیزائن واٹس اپ کرتا ہے کہ اس میں سے منتخب کرلیں! واہ کیا آسانی ہے! مگر ٹھہریں! کیا ہر آسانی کے ساتھ مشکل مشروط نہیں ہے؟
آنٹی میں نے لان کے ریپلیکا سوٹوں کی ایجنسی لی ہے۔آپ سب اپنے نمبر مجھے بتادیں۔میں ڈیزائن بھیج دوں گی .....“ یہ بات سن کر درس میں موجود ہر ایک نے اپنا نمبر بلا جھجک دے دیا۔دو گھنٹے بعد تمام خواتین کے موبائیل رنگ برنگے سوٹوں میں ملبوس ماڈل گرلز کے ہوش ربا پوزوں سے بھر گئے۔ کچھ بوڑھی خواتین جو اتنی زیادہ اسمارٹ نہیں ہیں اس آفت سے گھبرا گئیں۔ اس سیلاب بلا کو روکنے کے لیے انہیں اپنے نواسوں کی مدد لینی پڑی جن کے ہاتھ بیٹھے بٹھائے ایک تفریح آگئی۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ کھمبیوں کی طرح واٹس اپ گروپ اگ آئے ہیں۔ ایک ایک فرد کئی کئی جگہ پایا جاتا ہے۔تشہیری مہم کے لیے یہ گروپس یقیناً بہترین ہیں۔ مشہور شخصیات کا اپنے پرستاروں کے ساتھ گروپ یا اور کسی انتظامی امور کے لیے بنائے گئے گروپ افا دیت رکھتے ہیں مگر اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے!تجزیاتی مہارت رکھنے والے تصویر کا دونوں رخ سامنے لاتے ہیں مگر اکثریت صرف اور صرف روشن رخ دیکھنے پر اصرار کرتی ہے۔ کیا یہ درست رویہ ہے؟ مومنا نہ فراست کا تقاضہ تو یہ ہے کہ جس بات پر ہماری فلاح و نقصان کاانحصار ہو ہم اس کے تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لیں!تو اس نئی سماجی ابلاغ نے ہماری زندگی کے رحجانات وتر جیحات میں کیا تغیر ات پیدا کیے ہیں جاننا از حد ضروری ہے۔ مختلف گروپس کی وجہ سے تخلیقی اور قلمی صلاحیتوں پر پڑنے والے اثرات سے بچاؤ کیونکر ممکن ہے؟
ہمیں کچھ پہلے یہ ادراک ہوا کہ ہر وقت آن لائن رہنا تخلیقی صلاحیت کو متائثر کر رہا ہے۔ جتنی بھی مثالیں دیکھیں یہی عنصر نظر آیا۔بحیثیت ایک ادیبہ ہم نے جتنے مستند ادیبوںکو پڑھا تو اندازہ ہوا کہ انہوں نے اپنی تخلیقات، علمی اور ادبی ورثے کے لیے اپنا وقت قربان کیا، کھانے پینے حتٰی کہ گھریلو زندگی کی بھی بہت قربانی دی۔اس وقت اتنے سماجی آلات نہ تھے مگر پھر بھی ان کے پاس بڑے معاشرتی دائرے تھے جنہیں انہوں نے حدود و قیود کے تحت رکھا ہوا تھا۔ چند ایک مستثنات کے علاوہ جتنے بھی افرادنے تخلیقی کارنامے انجام دیے انہوں نے اپنے آپ کو بھیڑ چال سے بچائے رکھا۔تخلیقی صلاحیتوں کابہترین مظاہرہ جیلوں میں یا پھر خود ساختہ روپوشی سے ہی ممکن ہوا۔تخلیقی کام کرنے والوں کے لیے مجلسی زندگی سے اپنے آپ کو وقتی طور پر علیحدہ کرنا بہت ضروری ہے۔
یہ موضوع ہماری ترجیحات میں ہر گز نہیں تھا کہ افراد خود تجربہ کر کے ہی سمجھنا چاہتے ہیں اور پھر سب سے بڑا اعتراض کہ خود آن لائن رہ کر دوسروں کواس سے کیسے روکا جائے؟ مگر پچھلے دنوں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ہمیں اس پر قلم اٹھا نا پڑا۔پچھلے آٹھ دس سال سے انٹرنیٹ کی دنیا میں ہیں جہاں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جن کے اثرات ہمارے سماجی اور معاشرتی رویوں میں بھی نظر آرہے ہیں۔بحیثیت ایک ادیبہ ہمارے لیے اس میں زبر دست کشش موجود تھی۔ آن لائن مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ بلاگنگ! ....
اس سال کے آغاز میں ادیبات کا واٹس اپ گروپ بنایا گیا جس کی اطلاع ہمیں کئی ماہ بعد ایک فرد سے ملی۔ان کے مطابق حیرت ناک بات یہ کہ آپ اس گروپ میں نہیں ہیں۔ اس کے بعد کبھی اصرار، کبھی فر مائش، کبھی جذباتی دباؤ اور کبھی چاہ میں ہمیں گروپ میں شامل کر لیا جاتا اور ہم ادھر ڈوبے ادھر نکلے کے مصداق گروپ سے باہر،اندر ہوتے رہے۔اس ساری مشق میں ہمارا امیج کیا بنا؟ جوہمیں ذاتی طور پر نہیں جانتے ان کے نز دیک مغرور، بد تمیز اور بے مروت ٹھہرے جبکہ جو جانتے ہیں وہ بھی ہمارے اس رد عمل سے کچھ سہم کر دور ہوگئے!کچھ نے کہاآپ کا نکلنا بد دلی پھیلانے کا باعث بنا! کسی نے ہماری ناراضگی کا اندیشہ ظاہر کیا ........ یہاں ہم  اپنی صفائی ہر گز نہیں پیش کر رہے مگر صرف یہ عرض کرنا ہے کہ بلا اجازت اور منشاء کسی کو گروپ میں شامل کرنا کہیں بغیراجازت کسی کے گھر میں داخل ہونے کے زمرے میں تونہیں ہے؟(اس سے پہلے کئی گروپس خوشدلی سے ہماری معذرت قبول کر چکے ہیں)س سارے منظر نامے میں ہر گز ہر گز شامل کرنے والوں کی بے عزتی نہیں کہ ہمارا دین یہ کہتا ہے کہ جواب نہ ملنے پر بغیر برا مانے پلٹ جاؤ!اس معاشرتی ضابطے سے کسی کا استحقاق مجروح نہیں ہوتا! کسی کی بے عزتی نہیں ہوتی میری عزیز بہنو! اخلاص کو ناپنے کا یہ پیمانہ درست نہیں! ناراضگی یا بے مروتی کا تا ثر صحیح نہیں ہے!
چند دن پہلے پھر شامل کر لیے گئے...گروپ کے بارے میں نیک خواہشات کو ہماری رغبت جان کر ایک بار پھر داخل گروپ کرلیا گیا۔ اوربارہ گھنٹے بعد جب اپنا وائی فائی آن کیا تو سینکڑوں سے بھی زیادہ پیغامات جن کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے گھنٹوں درکار ہیں مگر پھر بھی ناقابل فہم ہی ہیں کیونکہ وہ تو تیروں کی طرح برس رہے ہوتے ہیں۔کون سی بات کس بات کے جواب میں کہی گئی ہے کچھ اندازہ نہیں ہوتا اور اندازوں کی غلطی جو ابہام پیدا کرتی ہے اس کو زائل کرنے میں مزید وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔بہر حال ان تمام پر ایک سر سری نظر ڈالنے سے کچھ باتیں سمجھ آئیں جو یہاں محض مثال کے لیے لکھ رہے ہیں کسی کی دل آزاری ہر گز مقصد نہیں!
ایک خوش قسمت خاتون عمرے کے بعد مدینے کی طرف روانہ ہورہی ہیں، گروپ کے ارکان ان کو نم دیدہ قسم کے پیغامات بھیج رہی ہیں اوروہ مستقل اپڈیٹ کے ذریعے جذبوں کو گر مارہی ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دربار میں تو تمام رابطے منقطع کر کے جانا چاہیے! ہاں بعد میں اپنے جذبات شئیر کرنے میں کوئی حرج نہیں!

 دوسری محتر مہ جو اپنے آپ کو باغی کہلوا تی ہیں انہوں نے پہلے تو کسی اور کی نظم شئیر کرکے ایک عجیب سے مغالطہ میں سارے ممبران کو مبتلا کیے رکھا بعد میں انکشاف ہوا کہ وہ کسی اور نظم کی بات کر رہی ہیں! اف خدا یا کیا وقت کا قتل جائز ہے جبکہ وقت ہی زندگی ہے! کیاہم ابہام کی بات کیے بغیر نہیں رہ سکتے؟  پھر اس کے بعد انہوں نے اپنے کسی پراجیکٹ کے لیے ڈراموں کے نام مانگے جن میں عورت پر تشدد دکھایا گیا ہوکہ میں ٹی وی نہیں دیکھتی تو ڈراموں سے لاعلم ہوں! ہنسی بھی آئی اور غصہ بھی کہ کوئی قرون وسطٰی کی معلومات تھوڑی ہیں کہ ناپید ہوں ان معلومات سے تو انٹر نیٹ بھرا پڑا ہوگا! اور ہمارا میڈیامانیٹرنگ کا پورا شعبہ ہے جو اپنا کام انجام دے رہا ہے اس سے کیوں براہ راست رابطہ نہ کیا؟ اس چکر میں گروپ کے ارکان کو الجھائے رکھا اور پھر ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا۔ میری پیاری بہن! ہم بازار میں کھڑے ہوکر کبھی بھی ہانک نہیں لگاتے بلکہ مطلوبہ دکاندار سے ہی رابطہ کرتے ہیں۔بہت معذرت مگرآئینہ کی مثال سامنے رہنی چاہیے کہ وہ ہماری صحیح شبیہ پیش کرتا ہے! 
......گروپ کے ممبران پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ سینکڑوں ممبران میں سے کچھ ہی کو براہ راست جانتے ہیں۔ ان میں چند تومستند ادیبات ہیں جبکہ کچھ نوسیکھ! کچھ یقیناً انتظامی حوالے سے ہوں گے۔ ہر ایک کی ضروریات،دلچسپیاں، اوقات، ترجیحات،ذہنی سطح مختلف ہوں گی۔ان سب کاہر وقت آن لائن رہنا (کیونکہ ٹائم زون میں اختلاف اور الگ الگ شیڈول کے باعث ہر وقت کچھ نہ کچھ لوگ دستیاب ہوتے ہیں)  کس طرح ایک صحتمند تخلیقی سرگرمی بنا سکتی ہے؟کچھ لوگ سادگی کے ہاتھوں اپنی ہر بات گروپ میں ڈالتے ہیں (کبھی اپنے مضمون کا statusمعلوم کرنا ہو یا تحقیق کے لیے لنک کی تلاش! .....وغیرہ وغیرہ) جبکہ وہ انفرادی طور پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں! ....
یہان پر یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ کچھ افراد انٹرنیٹ/ سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک کے بارے میں ریزرویشن رکھتے ہیں مگر واٹس اپ کو بڑا بے ضرر سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور میں سب سے سہل،تیز رفتار اور موئثر ابلاغی ہتھیار ہے کیونکہ انٹرنیٹ وغیرہ تو آپ کے آن لائن ہونے پر منحصر ہے جبکہ واٹس اپ موبائیل نمبر پر ہونے کی وجہ سے ہمہ وقت رابطہ ممکن ہوتا ہے۔اور موبائیل آج کے دور کی ایسی ضرورت جسے آف نہیں رکھا جا سکتا
۔دوسرے یہ کہ یہ صرف مختصر پیغامات کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔اگر مضمون پڑھوانا یا ویڈیو دکھانی ہو تو محض لنک دے دینا کافی ہے۔ چھوٹے سے اسکرین پر لمبے لمبے مضامین پڑھنا، گھنٹوں اسکرین کو تکنا، کانوں سے لگائے رکھنا، ہاتھوں میں اٹھا ئے رکھنا صحت کے حوالے سے ایک خطر ناک رحجان ہے۔ہوسکتا ہے فوری طور پر کوئی اثر نہ نظر آئے مگر بعد ازاں امکان ہو سکتا ہے خدانخواستہ!
اس معاملے میں مقاصد کا تعین، اوقات اور پیغامات کی نوعیت کے اصول و ضوابط طے کرنے بہت ضروری ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟؟
           گروپ کے ارکان؟  گروپ ایڈ منز؟        یا پھر مارک زبرگر؟؟
......................................................................................................................