ہفتہ، 15 اگست، 2015

نظریے کا سفر !

نظریے کا سفر!                        
مجھے یاد آگیا وہ 13 اگست 1981 ء کی رات تھی ہم فرخ خالہ کے بیٹے کے ولیمے سے واپس آئے تو دیکھا کہ ابا ستلی کا بنڈل لے کر آئےہیں اورکچن میںلئی پکارہے کہ   جھنڈیاں چپکا ئ جا سکیں!یہ نظارہ ہمارےلیے بڑا حیران کن تھا کیونکہ ہمارے بچپن میں جشن آزادی کی موجودہ شکل نہیں ہوا کرتی تھی۔ چھٹی ضرور ہوتی تھی توگھومنے جاتے، مزار قائد کی سیر اور فاتحہ کےبعد گھرلوٹ جاتے، رات کوسرکاری عمارتوں پر ہونے والا چراغاں بھی دیکھنے چلے جاتے مگر اس دفعہ کچھ انوکھا منظر تھا!
 ایک بڑا سا جھنڈا بھی ابا لائے تھے جو انہیں صبح اپنے ڈیپارٹمنٹ میں لہرانا تھا۔اس جھنڈے کودیکھ کرہم سب بہت خوش تھے کیونکہ اس زمانے میں اتنے افراط نہیں بلکہ ملاہی نہیں کرتے تھے- بھائ طارق دادی سے جھنڈا سلوانے کی ضد کرتا توبےچاری بہت محنت سےاپنے ہاتھ سے سینے کی کوشش کرتیں مگر پھر بھی وہ اتناعمدہ نہ بن پاتا جیسے یہ جھنڈا تھا! سبز، خوبصورت ہلالی پرچم !اس دفعہ کیا خاص بات تھی؟؟جی ہاں ! ضیاء الحق کا دور حکومت تھا اور انہوں نے جشن آزادی شایان شان طریقے سے منانے کا حکمنامہ جاری کیاتھا۔یہ اسی سلسلےکی کڑی تھی-
اگلےدن صبح آٹھ بجے سائرن کی آوازپر تمام ٹریفک رک گئ اور پوری قوم نے ہم آوازہوکر قومی ترانہ پڑھا۔ایوان صدر میں خصو صی تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا جو ٹیلی وژن سے براہ راست دکھایا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کی روداد اظہرلودھی کی پر جوش اور جذباتی آواز میں جذبوں کومہیزکر گئ- بزرگ اور جوان ایک نئے ولولے سے یوم آزادی منا رہےتھے---اورعزیز قارئین! جشن آزادی کو ایک نئی امنگ کے ساتھ منانے کی روایت  ضیاء الحق کا ایسا کارنامہ جے ان کا کوئ دشمن بھی انکار نہیں کر سکتا۔ موجودہ جشن آزادی ایک رسمی سی تقریب بن کر رہ گئی ہے یا ہمیں عمر کے لحاظ سے ایسا لگتاہے ورنہ بچوں اور جوانوں کےلیے آج بھی جذبوں کے اظہار کا دن ہے یہ اور بات ہے کہ موجودہ دورکی مادیت پرستی اور دکھاوااس میں از خود شامل ہوگیا ہے!
بہر حال ہر سال 14  اگست کی صبح امی عید کی مانند اچھا سا ناشتہ بناتیں اورٹی وی پر پریڈ نہ صرف خود دلجسپی سے دیکھتیں بلکہ ہم سب کو بھی دکھواتیں۔ساتھ روتی بھی  جاتیں۔ ۔اپنے چھوٹے ذہن کی وجہ سےہم اس وقت سمجھنے سے قاصر تھے کہ عورتیں خوشی ہویا غم روتی کیوں ہیں؟ کچھ بڑے ہوئے تو اندازہ ہوا امی اپنی اس پہلوٹی کی بچی کی موت یاد کرتی ہیں جس کا انتقال 14اگست کو ہوا تھا۔بات ادھوری درست تھی اصل وجہ یہ تھی کہ آزادی کے حصول کے لیے انہوں نے ایک بچی کی حیثیت سے جو کچھ دیکھا اور سہا تھا اس کی یاد ان کویوم آزادی پر رلا دیتی تھی!!                        
( تفصیل ہجرتوں کے سفر میں گزر چکی ہے) http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=8285
۔۔۔۔امی ہجرت کے واقعات اس طرح سناتیں کہ ہم اس کے حصار میں آجاتے۔قائداعظم کا
ذکر وہ ہمارے قائد اعظم کہہ کر کرتیں کہ ہم انہیں اپنا کوئ رشتہ دارہی سمجھتے بلکہ کئ دفعہ دوستوں سے لڑائ بھی ہوئ کہ وہ ہمارے ہیں تمہارے نہیں!
ان احساسات نے ہمیں پاکستان سے ایسا قلبی لگاءؤ پیدا کیا جواس پر انگلی اٹھانے والوں سے ضرورہی جھژپ پر منتج ہوتا- ۔ہمارے بہت سے قریبی رشتہ دار جو پاکستان آکر پچھتا رہے تھے ان کی آمد ہمارے گھر میں مباحثہ کی سی کیفییت پیدا کر دیتی خصوصاً جب موضوع یہ ہوتا کہ پاکستان نےہمیں دیا کیا ہے۔؟سب کے درمیان جدائ ڈال دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!      گفتگو میں محتاط اور کم گو ابا جان کبھی اس گرماگرمی میں اور اکثر ایسی محفل کے اختتام پر بر ملا کہا کرتے کہ ہمیںتو جو بھی عزت ملی ہے پاکستان سے ملی ہےورنہ اپنی تمام تر قابلیت اورمحنت کے باوجود ہندو بنیے کے دیس میں کوڑی بھرنہ تھی- جہاں تک رشتوں سے بچھڑنے کا معاملہ تھا تو اس بات پر پاکستان مخالف رشتہ دارجذباتی پوائنٹ اسکور کرلیتے تھے حالانکہ اس پربھی کھلا آپشن تھا جو ہجرت کے لیے تیار نہ ہوئےتو ایےخاندان واقعی کشمکش کا شکار رہے اور یہ ہی احساسات اگلی نسل میں منتقل ہوئے جبکہ الحمدللہ ہمیں ماں اور باپ دونوں کی طرف سے پاکستان کی محبت ورثے میں ملی- نانا مسلم لیگ کے سرگرم کارکن تھے اوریہ جذبہ امی کے ذریعے ہمارے اندر منتقل ہواجبکہ اباجان نےایک پندرہ سال کے نوعمربچےکی حیثیت سے ازخود ہجرت کی تھی چنانچہ پاکستان کی قدر دانی ہمارے شعورمیں بھی داخل تھی!   اگر بچپن یں کبھی پاکستانی آم کو کوئ براکہتا بمقابلہ ہندوستانی تو ایسے برا لگتا جیسے ہمیں گالی دےدی گئ ہو! ایک دفعہ چھوٹے بھائ کے اسکول میں عملی امتحان لینے ممتحنہ تشریف لائیں تو ساڑھی میں ملبوس تھیں تو اس نےگھر آ کر تیوریوں پر بل ڈال کرکہا کہ ہندو تھیں محترمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                           
 مختصر یہ کہ ہندوستان سے نفرت ہمارے خون کا حصہ رہی کہ آج بھی خریداری کے دوران اگر دکان دارکسی شئےکے بارےمیں کہہ دےکہ انڈین ہے تو خواہ کتنی ہی دل پسند کیوں نہ ہواور ضرورت بھی ہو ہم اس کی طرف سے منہ موڑ لیتے ہیں لیکن اس موقع پر اعتراف کر لینا چاہیے بیرون ملک بھارتیوں سے اختلاط، ہندی فلموں،اشیائ کی یلغار اورسب سےبڑھ کراشتہا انگیزفلموں سے گریز تمام بھائیوں میں یکساں نظر نہیں آتا مگر اسکا مطلب جذبہ حب الوطنی میں کمی نہیں! اس کا ثبوت یہ ہے کہ کئ بار مواقع ملنے کے باوجود میرے کسی بھائ بہن نے امیگریشن کے لیے کبھی اپلائ نہیں کیا اور جذبوں کا یہ سفر اب اگلی نسل میں داخل ہوگیاہے جب میرے نوجوان بھتیجے نےجو چھ سال بعد وطن لوٹا یہ کہہ کر ہم سب کوحیران کردیا کہ میرا امیگریشن کاکوئ ارادہ نہیں!!! وہ بچہ جس نےاپنی عمر کا دو تہائ حصہ پہلے والدین کی تعلیم و ملازمت اورپھر اپنی تعلیم کی وجہ سے ملک سے دورگزاراہو،اپنی شناخت کوختم کرنے والے کسی بھی دستاویز کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے!اللہ اس کےارادوں کو استقامت بخشےاورکسی بھی پچھتاوے سے محفوظ رکھے ۔اس یوم آزادی پر وہ دھند میرے ذہن سے ہٹ گئی جوعید کے دن رشتےکے ایک بھانجے کے ایک جملے پرپڑگئی تھی ٌ۔۔۔بس خالہ مجھے اب یہاں نہیں رہنا۔۔۔۔۔۔۔کہیں بھی نکل جاوءں گا اس سال۔۔۔۔۔ٌٌ اس نےمجھے دعا کرنے کو کہا تو میرے دل نے کہا  اے کاش تیری آرزو بدل جائے۔۔۔۔!                           رات کے اس لمحے جب یوم آزادی کے جشن کےلیے فائرنگ اور پٹاخوں کی آوازبغیر سائلنسرکی موٹر سائکلوں کی آ واز سے مل کر فضا کو شور میں مبتلا کر رہی ہے تو یہ ہی دعا میرے لبوں پر آ گئی ہے۔۔۔۔۔اور مجھے جس کی قبو لیت میں ذرہ بھر بھی شبہ نہیں کہ ان جذبوں کی صرف راہ بدلنے کی د یر ہے ۔اس موقع پر ایک بزرگ کا واقعہ یاد آرہاہے جب انہوں نے سینما کی لائن میں لگے نوجوانوں کو دیکھکر ما شاءاللہ کہا اور ساتھیوں کے اظہار حیرت پر مسکراتے ہوئے کہا تھا ان نوجوانوں کا رخ بدلے گاتو یہ ہی ماحول بدل جائےگا۔۔۔۔۔۔اس فخر کے ساتھ اس بلاگ کا اختتام کہ یہ نوجوان ہی تو ہمارا سر مایہ ہیں۔۔۔۔۔اے کاش دو قومی نظریہ کا یہ سفرہماری اگلی نسلوں تک بھی جاری رہے۔۔۔۔۔!                 
v فر حت طاہر                    

    

پیر، 10 اگست، 2015

جنت کے دو دروازے

شمسی اور قمری  مہینے ریل کی پٹریوں کی مانند ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں کبھی کسی مقام پر دونوں ملتے اور پھر جدا ہو جاتے ہیں! عموماً تیس بتیس سال بعد ان کا ملاپ ممکن ہوتا ہے۔کچھ ایسا ہی اتفاق اس سال نظر آ رہاہے۔ ہماری ذاتی اور قومی زندگی کے اہم واقعات اور سانحات میں اس حوالے سے دلچسپ صورت حال نظر آ تی ہے۔

  شمالی علاقہ جات میں زلزلہ آیا تورمضان کا مہینہ تھا اورآج  دس سال بعد جون کامہینہ ہے!نومبر کے رمضان میں پیدا ہونے والی بہن اور جولائی میں پیدا ہونے والے دو سال چھوٹے بھائی کی سالگرہ ایک دن پڑتی ہے۔ ایک کی شمسی لحاظ سے تو دوسرے کی قمری لحاظ سے! اس کا دائرہ  دیگر معاملات میں بھی نظر آتا ہے۔دو بھائیوں کی شادیاں ہ ذو الحج میں (کئی سال کے وقفوں سے)  سر انجام پاتی ہیں تو بلحاظ شمسی کیلنڈر اگست سے مارچ آ جا تا ہے!جبکہ اسکے بر عکس دو بھائیوں کی شادی  ماہ مارچ میں ہوتی ہے مگر درمیان میں نو سال کے وقفے کی وجہ سے ذو الحج کے بجائے ربیع الا ول آ جاتا ہے!

   یہ ہی صورت حال  اموات کے معاملے میں بھی نظر آ تی ہے! ہماری امی کا انتقال رجب میں جبکہ ابا ربیع الثانی میں اور بڑے ابا محرم میں اللہ کو پیارے ہوئے مگر قمری مہینوں کے تفاوت کے باوجود تینوں میں جون کا مہینہ تھا۔ اس کے علاوہ مختلف شمسی مہینوں جدا ہونے والی نانی، خالہ، ماموں اور نانا شعبان،رمضان اور عیدالفطر (چاند رات) کو دنیا سے رخصت ہوئے گویا اس سال رمضان اور جون ایک ساتھ طلوع ہوئے تو اپنے جلو میں میرے تمام قریبی بزرگوں کے یوم وفات لے کر نمودار ہوئے۔
ہماری زندگی میں اس سے پہلے بھی جون کے مہینے میں رمضان آ چکا ہے۔اس کی یادیں بہت اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ اس سال اسی شدت کی گرمی دیکھی تھی اور ہمارے لیے اس لیے بھی یادگار ہے کہ پہلے رمضان تھے جو امی کے بغیر گزارے تھے! جی نہیں!وہ زندہ تھیں مگر نائیجیریا گئی ہوئی تھی جہاں ابا جان ملازمت کے سلسلے میں قیام پذیر تھے۔ سرمنڈاتے ہی اولے پڑنے والا معاملہ تھا! کتنا بوکھلاتی تھی میں!گر می میں افطار و سحر کی تیاری اور اس سے بڑھ کر اسے واپس فرج میں رکھ کر آئس کریم، شربت اور پھل کے انتظامات کرنا! ......جب یادوں کی لڑی اٹھاؤ تو ہر منظر میں سب سے روشن چہرے والدین کے ہیں جو اپنی اولاد کے لیے جہاں زندگی کی ضمانت ہوتے ہیں وہیں جنت کے دو دروازے بھی!  میری جنت کے دروازے کیسے تھے؟
  دونوں  میں قدر مشترک: خد مت خلق کے لیے ہمہ وقت تیار،دونوں جذباتی اور سادہ لوح!  حد درجہ معصومیت، کوئی بھی بآسانی بے وقوف بنالے! اپنی نمایاں معاشی اور معاشرتی حیثیت کے باوجود رہن سہن اور مزاج میں سادگی! دونوں پیسہ جوڑنے کے بجائے خرچ کے فلسفہ پر یقین رکھتے تھے۔لیکن ا س کے باوجود کچھ متفرق اور متضاد ذاتی خصو صیات بھی تھیں۔ امی حد درجہ باتوں کی شو قین تو ابا اس معاملے میں کفایت شاری کے قائل! اس پر بڑے لطیفے سر زد ہوتے تھے۔ ابا منظم اور تر تیب پر جبکہ امی ہنگامہ خیزی پر یقین رکھتی تھیں۔ امی لوگوں کے درمیان خوش تو ابا تنہائی میں! امی تفریح کی دلدادہ تو ابا کی بہترین دوست ان کی کتابیں تھیں۔
  یہ ابا کی علم دوستی تھی جس نے انہیں کئی دفعہ گھر سے جدا ہونے پر مجبور کیا!سب سے پہلے بارہ سال کی عمر میں! گاؤں کے مکتب میں بنیادی تعلیم مکمل کرنے کے بعددادا کے صاف کہنے پر کہ انکی بساط نہیں کہ وہ انہیں آگے پڑھنے کے لیے شہر بھجواسکیں وہ گھر سے نکلے اور جب واپس آئے تواعلٰی مدرسے میں داخلہ کی خوشخبری ساتھ لائے! داداکی اخراجات کے بارے میں فکر کو وظیفہ کی خبر نے دور کر دیا! اگر میرے والد اس وقت یہ مہم جوئی نہ کرتے تو؟...
دوسری جدائی قیام پاکستان کے وقت کی ہے  جب پندرہ سال کی عمرمیں اپنے استاذ کے خاندان کے ساتھ پاکستان روانہ ہوگئے۔  ماں باپ پر کیا قیامت گزری ہوگی؟ اجنبی دیس میں! نہیں یہ تو اپنا وطن ہے جہاں کامیابی منتظر ہے مگر جس کے لیے خون پسینہ ایک کر نا پڑا اور پھر وہ مبارک گھڑی آئی جب خاندان سے ملن ممکن ہوا۔ اس وقت تک  ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے کئی مدارج طے کر چکے تھے! کتنے موقع شناس تھے ہمارے ابا! .یہ تمام جدو جہد چند الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی ...!
حصول علم کے لیے ان کی تیسری ہجرت جرمنی کی طرف تھی جہاں وہ پی ایچ ڈی کے لیے گئے تھے۔ساڑھے چار سال پر محیط یہ دورانیہ شاید سب ے زیادہ تکلیف دہ تھا جہاں ایک  طرف غیر ملکی زبان پر عبور حاصل کرکے مقالہ تحریر کرنے کا دباؤ تھا تو دوسری طرف اپنی فیملی کو تنہا چھوڑنے کی فکر جس میں ضعیف والدہ،اہلیہ کے علاوہ چھہ بچے جن کی عمریں بارہ سال سے  چند ماہ تھیں۔معاشی مصائب اور معاشرتی خلجان کے ساتھ ساتھ ملک بھی سنگین بحران کی زد میں تھا۔ماں کے انتقال اور ملک کے دو لخت ہونے کے سانحات ایک ساتھ سہنے کو ملے تھے...کس قدر جذ باتی دور سے گزرے تھے ابا! ایسے میں  بچوں کی آ وازوں کے کیسٹ اور تصاویر مایوسی اور تنہائی میں امید اور خوشی کی کرنیں بکھیرتے. ... اپنی اولاد کے ساتھ ایک بہترین وقت گزارنے کی محرومی نے انہیں اس معاملے میں اتنا حساس کردیا تھا کہ بقیہ زندگی میں تلافی کی بھرپور کوشش کی۔..
     اللہ نے ا نہیں ایک با عزت مقام عطا کیاتھا.مگر زندگی میں سادگی ہی نمایاں رہی۔اس کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کرتی ہوں!
 اسٹاف ٹاؤن میں رہائش  پذیر تھے مگر یکساں گھر کا نقشہ ہونے کے باوجود بود و باش میں فرق نظر آ تا تھا۔ حالانکہ ایک مستقل نوکر کی سہولت  موجود تھی مگر سوائے جزوی  مدد کے ہمارے گھر میں اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کاصول لاگو تھا۔میں اپنی دوست کے گھر جاتی تو نوکر فوراً ٹرے میں کولڈ ڈرنک اور بسکٹ وغیرہ لے کر جاتا اور جب وہ میرے گھر آ تی تو کچن سے برف توڑنے کے ساتھ..میں بھی پیوں گا.....مجھے بھی چاہیے ...قسم کی آوازیں مجھے سخت شر مندہ کر دیتیں ....   میرے شکوہ کرنے پر امی اہتمام کرتیں کہ شور نہ ہو اور خود بیٹھ کر اس سے باتیں کرتیں ... بر سوں بعدجب میری وہ دوست ملتی ہے تو بچپن کی یاد تازہ کرتی ہے کہ کس طرح تمہاری امی اپنے ہاتھ سے میری تواضع کرتی تھیں ..نوکر کی وجہ سے اس کی امی کچن میں جانے نہیں دیتی تھیں چنانچہ وہ کھانا پکانے کی معمولی شد بد سے بھی محروم رہی...مجھے اس لمحے اپنے والدین پر بڑا فخر محسوس ہوا کہ انہوں نے زندگی گزارنے کی مہارتیں ہمارے اندر پیدا کر کے کس طرح آسانی مہیا کی۔ ہمیں سلائی سکھانے کے لیے بھی امی اور شا ید ان سے بھی زیادہ ابا نے جدوجہد کی جس پر ہم آج بلاشبہ فخر محسوس کرتے ہیں۔میری تحریری صلاحیت بھی سراسر والدین حوصلہ افزئی کی مرہون منت ہے جس نے ا عتماد ادا کیا۔
     ابا کم گو تھے مگر حد درجہ متحرک! ان کے ساتھی مذاق سے کہا کرتے تھے کہ آ پ نے تو پیدل چل چل کر یونیورسٹی کی سڑکیں گھسا دی ہیں ... ان کی مہم جوئی ہم سب کو خوفزدہ رکھتی تھی کہ کہیں کسی ٹریفک حادثے کا شکار نہ ہو جائیں مگر ایسا نہ ہوا جب آ ہستہ آ ہستہ ان کی چلت پھرت کم ہوتی گئی۔چلنا، بولنا،کھانا نگلنا ....سارے افعال ایک بچہ درجہ بدرجہ مہینوں میں سیکھتا ہے جبکہ ضعیفی میں ا س کے بالکل بر عکس یکے بعددیگرے  زوال آتا ہے!یہ ہم نے اباپر مشاہدہ کیا! د س ماہ میں ایک بچہ زندگی کی طرف دوڑنے لگتا ہے اور وہ کمزور سے کمزور ہوتے گئے اور بالآخرموت سے ہار گئے! اپنی خود نوشت لکھنے کا وعدہ وفا نہ کر سکے!اپنی زندگی کی آخری شام وہ بالکل بچوں کی طرح معصوم نظر آ رہے تھے۔میں نے بے اختیار ہوکر ان کا بوسہ لیا تھا(بعد میں پتہ چلا کہ حضرت فاطمہ ؓ بھی اپنے بابا محمدﷺ کا بوسہ لیا کرتی تھیں توخوشی ہوئی کہ اللہ نے مجھے ا نادانستگی میں ہی سہی، ایک سنت پر عمل کی توفیق دی) اللہ اسے حق میں حجت بنائے آ مین
  ابا کے انتقال سے دو ماہ پہلے امی کو ہارٹ اٹیک ہوا۔اس کے بعد ان کی صحت بھی گرتی چلی گئی۔ تمام تر علاج معالجے کے باوجود وہ پہلے کی طرح بحال نہ ہو سکیں۔ پہلے تو معمولی سی بات پر خوش ہو جا یا کرتی تھی مگر اب بڑی سے بڑی بات پر بھی خاموشی کا اظہار کرتیں۔ابا کے موت کے چھہ سال بعد ٹھیک اسی دن، اسی ہاسپٹل میں ہم امی کو شدید نقاہت کے عالم میں لے کر پہنچے تو ہم سب بھائی بہنوں کے کلیجے منہ کو آ رہے تھے مگر زبان پر یہ بات نہ آ رہی تھی۔وہ پندرہ دن ایڈمٹ رہیں اور ہم آس میں رہے کہ پہلے کی طرح ٹھیک ہو کر واپس آ جائیں گی مگر ایسا نہ ہوا....یکم رجب کو مغرب سے ذرا پہلے میں ان کو تسبیحات پڑھوا رہی تھی۔مجھے واپس جانا تھا اور اس مہربان سی ڈاکٹر کی ڈیوٹی بھی ختم ہونے والی تھی ..دل چاہا کہ یہ لمحات ٹھہر جائیں مگرآہ! اس سے پہلے ہی پیام اجل آ گیا۔ امی توکسی سے معذرت نہ کرتی تھیں اور یہ تو رب کائنات کا بلاوا تھا ...!مجھے ڈاکٹر نے زبر دستی باہر بھیج دیا۔ میں روتی ہوئی آئی سی یو سے نکلی تو ٹی وی اداکارہ عائشہ خان اپنے بھانجے کو دیکھنے داخل ہورہی تھیں۔انہوں نے مجھے گلے لگاکر بوسہ دیا اور توجہ دلائی کہ رونے کا نہیں دعا کا وقت ہے کتنی مبارک گھڑی ملی ہے تمہاری ماں کو...! ان کی تسلی نے مجھے ہمت دی  سب کو اطلا ع کرنے کے لیے موبائل نکالا تو اس پر میاں طفیل محمد کے انتقال کی خبر موجود تھی! دل کو اطمینان ہوا کہ آپ

 نیک روحوں کے قافلے میں شامل ہوں گی ...!
  ا می تو گویا اس دنیا کی مخلوق تھیں ہی نہیں! کھلے دل کی مالکہ! گھر اور دروازے ہر ایک کے لیے وا!کبھی بھی اور کہیں بھی تالا چابی نہیں!پرس ہمہ وقت کھلا اور زیادہ تر خالی!اکثر خواتین کی نظروں میں امی فضول خرچ تھیں مگر مالی معاملات میں ان کی قناعت اور توکل انہیں بہت زیادہ پریشانی سے بچائے رکھتا تھا۔امی کی نظر میں اہمیت یادوں، تعلق اور رشتوں کی تھی!
آج کا دور چائلڈ سنٹر ڈ ہے جبکہ ہماری امی اپنے زما نے میں اس فلسفہ پر عمل کرتی تھیں جب انہیں اس پر ہر طرف سے ملامت کی جاتی تھی۔  بچوں کو شر یک مشورہ کرنے اور ان کی بات ماننے پر نانی اور دادی کی طرف سے انہیں ڈانٹ پڑتی مگر ....!  ایک دفعہ میری ایک دوست نے حیرت کا اظہارکہ کیا تم لوگ بستر پر مل کر کودتے ہو؟....اور میرے جواب پر کہ نہیں  ہم اکیلے اور ڈوئٹ بھی کودتے ہیں ...اور اس کا منہ حیرت سے کھلا کاکھلا رہ گیا تھا۔ بلاشبہ ہمارے گھر میں آنے والے ہر بچے کو اتنی عزت ملتی تھی کہ وہ یہاں بلا روک ٹوک آ تے تھے۔رشتہ داروں، پڑوسیوں، دوستوں کے لیے امی ہمہ وقت دستیاب تھیں۔اپنے میکے میں چھوٹی آپا اور سسرال میں چھوٹی امی کے لقب سے ہر دلعزیز تھیں۔
 ہمارے محلے میں دو وائس چانسلر (سابقہ اور موجودہ)  رہتے تھے۔ ظاہر ہے ان کا کرو فر پروٹوکول کا متقاضی تھا مگر امی جس بے تکلفی اور اپنائیت سے ان گھروں میں جاتی بہت سے لوگوں کو حیرت ہوتی! وجہ؟ ان کا خلوص اور سادگی کے ساتھ مر عوب نہ ہونے کی صفت! دوسری طرف شمالی علاقے سے تعلق رکھنے والی اثناء عشری کے اژدر خان کا انتقال ہوتا ہے تو اس کے کوارٹر میں سب سے پہلے پہنچنے والی خاتون امی تھیں۔ ان کا خلوص ہر دو جگہ ان کو عزت دلاتا۔ امید ہے کہ ان کی عاجزی ان کو اللہ کے دربار میں بھی بلندی درجات رکھے گی۔ ان شاء اللہ!
   ہر دم لوگوں کے لیے دستیاب ہونے کی وجہ سے ہم سب ان سے شاکی رہتے تھے کیونکہ بہر حال کچھ نہ کچھ ضرب تو پڑتی ہی تھی ہم سب پر!
 (یا اس وقت محسوس ہوتی تھی...!)  آپ دوسروں کو ہم پر ترجیح دیتی ہیں ...ایک دن میرے شکوے پر وہ بول پڑیں
   ”..... تمہارا پریکٹیکل امتحان تھا کتنی بارش میں تمہیں لے کر میں گئی تھی ..... تمہیں اسلام آباد جانا تھا اگر میں نہ اٹھا تی تو تمہاری فلائٹ مس ہوجاتی......“ میں غصے کے باوجود ہنس پڑی تھی ان کی بات پر! اس وقت کہہ نہ سکی تھی مگر بعدمیں اعتراف کیا کہ آپ کے یہ احسانات تو ایسے ہیں جیسے کسی خزانے سے گرے چند موتی! ہماری تو زند گی ہی آپ کی احسان مند ہے (آپ ایک نایاب بلڈ گروپ رکھتی تھیں یہ جان کر اس احسان کا بار اور بڑھ گیا کہ ہم سب کی زندگی کتنا رسک تھی آ پ کے لیے!)
   اپنے والدین کے لیے یہ احساسات اگر چہ ذاتی ہیں مگر ان کو الفاظ میں ڈھالنے کا مقصد یہ ہے کہ جن کی جنت کے دونوں  دروازے یا ایک دروازہ کھلا ہے وہ اس کے ذریعے اپنا داخلہ یقینی بنالیں اور یہ چند الفاظ ہماری بھی نجات کا با عث بن جائیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                                   )  فر حت طاہر  (