ہفتہ، 11 جولائی، 2015

Hamara Pahla Roza

                                                              


                                        ہمارا پہلا روزہ.......

  یادیں کسی شو روم کی طرح سجی ہوں یا ورکشاپ کی مانند بکھری ہوں بہر حال انہیں سمیٹنے میں محنت لگتی ہے! مگر نہیں سوچنے میں اتنی دیر نہیں  لگتی جتنی لکھنے میں! وہ بھی رمضان المبارک اور کے الیکٹرک کی حد سے بڑھی ہوئی مہربانی کے ساتھ....مگر ہم نے یہ سوچ کر لکھنا شرو ع کردیاہے کہ ہمارے آ خری روزے کا احوال تو نہ کوئی پوچھے گا نہ لکھ پائیں گے لہذا پہلے کی روداد لکھ کر جان چھڑائیں ...
جب ہم نے روزہ رکھنا شر وع کیے تو موسم اور روزہ کی لمبائی دونوں بہت  معتدل اورمناسب تھے یعنی ستمبر، اکتوبر،مگر چونکہ شرط پہلے روزے کی ہے توعرض ہے کہ وہ شدید سردی کا موسم تھا! پس منظر کچھ یوں ہے کہ ہم اسٹاف ٹاؤن میں رہائش پذیر تھے جہاں بیس گھروں کا ایک بلاک تھا  جودو لائنوں میں بٹے ہوئے تھے کچھ اس طرح کہ ہر دو گھر کے بعدخالی جگہ گویا ہرمکان کارنر پلاٹ تھا۔ ہمارا گھر لائن کے آخر میں تھا جس کے آ گے گہرا جنگل اور سامنے اونچا نیچا میدان! اس کے بعد دوسرے بلاک شروع ہوتے تھے۔ہمارے بالکل سامنے چچا جمال رہا کرتے تھے۔ ان کی ابا سے دوستی تھی اور ان کی بیگم جنہیں ہم خالہ کہا کرتے تھے امی کی ہمجولی! ان کی بری بیٹی الماس سے ہماری دوستی تھی۔دونوں گھروں کے درمیان ایک  چوڑی سی گلی تھی۔(پتہ نہیں اتنی تفصیل  پڑھ کر آپ کے ذہن میں وہ خاکہ بنا یا نہیں جو ہما رے گھر کا تھا؟)
   ماہ رمضان کی ایک کہر آ لود دوپہر کا ذکر ہے جب امی اور صا حبہ خالہ گلی میں کھڑی دھوپ سینک رہی تھیں اور بچے وہیں منڈلا رہے تھے تو صاحبہ خالہ نے مشورہ دیا کہ بھابھی منڈی سے بہت سارا پھل اور سبزی آ گئی ہے کیوں نہ بچوں کو روزہ رکھوا دیا جائے! ہماری والدہ بھی کسی مہم جو سے کم نہیں تھیں چنانچہ فوراً عملدرآمد کا عندیہ دے دیا گیا ہوگا۔ قرعہ فال ہم تین بچوں کے نام نکلا جو شرائط کے قریب تھے یعنی کبھی روزہ نہ رکھا ہو! الماس، فر حت اور بھائی طارق! دوسری اور تیسری جماعت کے بچے! انتظا مات کی جزئیات بتانے سے قاصر ہیں کیونکہ اگر معلوم ہوتا کہ ہمیں اس موضوع پر کبھی لکھنا پڑے گا تو ہم کان لگاکر امی سے تفصیلات سن لیتے جو آج فر فر لکھ دیتے مگر ....اب تو ہمیں اپنی یاد داشت اور امی سے سنی ہیڈ لائن پر ہی یہ بلاگ تحریر کر نا پڑے گا!
اس قسم کی تقریبات میں نا نا نانی اور دادا دادی کی شرکت نہایت ضروری سمجھی جاتی تھی اور ہے کیونکہ یہ ہی تو اصل مال خرچ کرتے ہیں مطلب یہ کہ ڈھنگ کے تحفے اور سلامی وغیرہ دیتے ہیں! اس جملہ معترضہ کے بعدسوچتے ہیں کہ کس طرح ان کو مدعو کیا گیا ہوگا؟ ٹیلی فون تو تھے نہیں اس وقت موبائیل اور فیس بک وغیرہ کا کیاذکر!  لیکن اس زمانے میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہت مناسب تھا۔ اسٹاف ٹاؤن کی بس ہر گھنٹے پر نکلا کرتی تھی۔آج جو سوسائٹی آفس جانے کاسوچ کر رہ جاتے ہیں اس وقت دو رویہ جنگل کے بعدپہلی آ بادی وہی تھی  لہذا چنانچہ کسی کو دوڑا دیا گیا ہوگا ہماری روزہ کشائی کی اطلا ع دینے کو!
    روزہ کا آ غاز سحری  سے ہوتا ہے۔ اس کی تفصیل کیا بتائیں خاک بھی یاد نہیں! ہاں یقین ہے کہ مالیدہ ہو گا (گھی شکرمیں پکا پراٹھا جسے باریک کر کے چمچ سے کھاتے تھے یا پھر دودھ کے ساتھ۔ دادی کے ہاتھ کا بنا ملیدہ ہم بچے شوق سے کھا یا کرتے تھے!)۔ چونکہ سردی تھی لہذا دن تو چھوٹے ہوں گے اور جلد ہی افطار کا وقت آ گیا ہوگا!
    ڈرائنگ روم میں فر شی نشست بچھی تھی۔ جس میں سارے بچوں کو لائن سے دورویہ بٹھا یا گیا تھا۔روزہ دار گلاب کے ہار پہنے بیٹھے تھے جنھیں دیکھ کر بقیہ بچوں کے دل میں بھی ارمان اٹھ رہے ہوں گے!  درمیان میں دستر خوان پر افطاری سجی تھی۔مینو کا کیا بتا  ئیں! امرود اور فروٹ چاٹ تو یقینا تھی (جن کی وجہ سے ہم روزہ داروں کی صف میں شامل ہوئے تھے!) کینو اور نارنگیاں لڑھک رہی تھیں بلکہ بچوں نے اس سے کیچ کیچ کھیلنا شرو ع کر دیا تھا جس پر نا نا جان کی ڈانٹ صدا بصحرا ثابت ہورہی تھی۔ خیر کسی نہ کسی طرح اس میچ کو رکوایا گیا۔ پکوڑے اور چھولے بھی ہوں گے! ایک میٹھی ڈش جو ہمارے بچپن کا خاص رمضانی آ ئٹم ہوا کرتا تھا۔آ فیشل نام تو منگوچھی (مونگ کی دال تل کر شیرے میں ڈبوئی جاتی تھی) مگر بچوں کے لیے اسکا نام گپ ُچپُ ہوا کرتا تھا ضرور ہوگی!  سموسے تو ہم کو اچھی طرح یاد ہے کہ موجود تھے کیونکہ ان کے کونے (جو ہمیں آ ج بھی بہت مر غوب ہیں)کے ذرات ہم افطار سے قبل منہ میں ڈال چکے تھے۔ گلاب کی پتیا ں بھی چاٹ چکے تھے (جس پر بعد میں ہم نے اللہ سے بہت توبہ بھی کی تھی)
   .....تو عزیز قارئین! یہ تھی ہمارے پہلے روزے کی روداد  جسے یہاں پرختم ہو جا نا چاہیے تھا۔اس سے زیادہ بڑ ھا یا نہیں جا سکتا مگر جب یادوں کی پٹاری کھلی ہے تو اسے ایک متعلقہ حتمی بات تک پہنچانا ضروری ہے! رمضان کے بعد عید گزری ہوگی پھر بقر عید آئی ہوگی مگر ان دونوں کے درمیان کا ذکر ہے۔ چاند کی تاریخ تو معلوم نہیں ہاں جنوری کی سولہ تاریخ! ایک یخ بستہ رات تھی! ہم بستروں میں دبکے ہوئے تھے۔ آ نکھ کھلی تو  امی خالہ جان (یہ دوسری والی جن سے ہماری دیوار ملتی تھی) سے گفتگو میں مشغول تھیں۔ ہم کروٹ لے کر سوگئے۔صبح اٹھے تو ایک دکھی خبر (اس وقت تو خوفناک بھی لگی تھی) منتظر تھی۔ الماس اورصا حبہ خالہ مع ڈرائیور حادثے میں ختم ہوگئے!!!
  زندگی میں پہلی بار موت سے آ شنا ہوئے تھے۔ اس سے پہلے ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ دنیا میں جس کا کا م ختم ہوجاتا ہے اللہ میاں اسے اپنے پاس بلا لیتے ہیں مگر یہاں  ....؟ الماس تو شام کو ہمارے ساتھ کھیل رہی تھی۔دادی کے گھر جا نے کو تیار تھی ہم نے اسے تین آ نے دیے تھے   کیونکہ اس نے بتایا تھا کہ میری دادی کے گھر کے پاس دکان میں ناخن پالش ملتی ہے تین آ نے کی!اس کا کام کہاں ختم ہوا؟ اور خالہ صاحبہ کے بغیر گھر کیسے چلے گا؟ ڈرائیور کی تو ابھی شادی ہونیوالی تھی ......آہ زندگی یہ ہی ہے!
تفصیل یہ تھی کہ جمال چچا نے نئی گاڑی خریدی تھی۔ ڈرائیور کے ساتھ گھومنے گئے۔ واپسی میں سوئی گیس ٹرانسمیشن کے قریب (جہاں اب NED  اور سمامہ شاپنگ سنٹر ہے۔ اس وقت اندھیرا جنگل ہوا کرتا تھا) حادثے کا شکار ہوگئے۔ یہ مقام بڑا خونی تھا کہ یہاں کئی حادثے ہوچکے تھے۔ گاڑی میں موجود الماس، خالہ صاحبہ اور ڈرائیور زندگی ہار گئے۔ ننھی گڑیا کے صرف گال اور ماتھے پر زخم آ یا جبکہ بھائی گاڑی سے باہر جاکر گرا اور ٹانگ ٹوٹ گئی۔ حادثے کے بعد وہاں سے اسٹاف ٹاؤن کی آ خری بس گزری تو دیکھا۔ گاڑی کے باہر بسکٹ اور کھلونے بکھرے پڑے تھے!(شاید ان میں میری ناخن پالش بھی ہوگی!) جمال چچا کو اطلاع ملی تو وہ صدمے سے ذہنی توازن کھو بیٹھے۔
تین میتیں ایک ساتھ اٹھیں تو پورے محلے میں ایک کہرام مچا ہوا تھا! دادی جان اور امی میں اس بات پر بحث ہوئی کہ بچوں کو لاش دکھائی جائے یا نہیں! بہر حال  جو بھی طے ہوا ہو ہم نے گھس کر ان دونوں کو قریب سے دیکھ لیا تھا! الماس سفید کفن اوڑھے لیٹی تھی چہرے پر زخم کا نشان! منہ کھلا ہوا تھا گویا وہ موت کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوگئی ہو بالکل ایسے جیسے ٹی وی دیکھتے ہوئے خوفناک منظر پر کھلا رہ جاتا تھا۔ امی کی
 بات یاد آ گئی جو انہوں نے الماس ماں بیٹی کے حوالے سے دہرائیبچپن تھی۔ اس حادثے سے چند دن قبل الماس اپنی ماں کے ساتھ جانے کو ضد کر رہی تھی جبکہ وہ اسے گھر پر چھوڑنا چاہ رہی تھیں تو انہوں نے غصے سے کہا تھا یہ تو میرے ساتھ ہی مرے گی ...! بعض جملے سچ ثابت ہوکرکتنے ہولناک بن جاتے ہیں!
 عزیزقارئین! یہ بلاگ بہت ہلکے پھلکے انداز میں شروع ہوا تھا مگر یقین ہے کہ آپ اسے پڑھ کر اداس ہوگئے ہوں گے! موت کا ذکر ہی ایسا ہوتا ہے!  ان ہی دنوں میری ایک دوست اپنے والدین کے ہمراہ لیبیا چلی گئی تھی تو وہ ٹو ٹی پھوٹی تحریر میں خط بھیجا کرتی تھی جبکہ الماس صرف تصور بن کر رہ گئی تھی۔ کم عمری  میں ہونے والے فلسفہ موت سے آگہی ہوئی جوا دھوری تھی جبکہ مکمل اور اصل حقیقت تو یہ ہے کہ موت دوسری دنیا کی طرف سفر کا نام ہے جو اصلی اور دائمی زندگی ہے!ہم اس وقتی جدائی کو ہمیشگی سمجھ بیٹھتے ہیں!
  بہر حال پہلے روزے کی یاد نے بچپن کی سنہری یادوں کو ہمارے لیے بکھیر دیا۔ سمجھ میں نہیں آرہا کن باتوں کوپکڑیں اور کس کو چھوڑ دیں!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    )  فر حت طاہر  (